Thales of Miletus تھیلس آف ملیتیس

 


Thales of Miletus

تھیلس آف ملیتیس

پیدائش :625 قبل مسیح (اندازا)

وفات:546 قبل مسیح


ملک:یونان


اہم کام: معدوم تحریریں


”دنیا کا سب سے مشکل کام خود کو جاننا ہے۔"تھیلس آف ملیتیس



تھیلس آف ملیس

یونانی فلسفی تھیلیس 620 قبل مسیح کی دہائی کے دوران ایو نیا کے شہر ملیتیس میں پیدا ہوا۔ اسے سقراط سے پہلے کے سات دانا آدمیوں میں سے ایک خیال کیا جاتا ہے تھیلس کے فلسفہ اور سائنس کا مرکزی ماخذ ارسطو ا سے پہلا ایسا شخص قرار دیتا ہے جس نے مادے کے بنیادی سرچشموں پر تحقیق کی اور یوں فطری فلسفہ کے مکتبہ کی بنیاد رکھی تھیلیس اپنے نظریہ کائنات کی وجہ سے مشہور ہے جس میں پانی تمام مادے کا جوہر ہے اور زمین ایک وسیع و عریض سمندر کی سطح پر تیرتی ہوئی

چیپٹی تھالی ہے۔ تھیلیس کی کوئی تحریر باقی نہیں بچی ، لہذا اس کی کامیابیوں کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ”سات دانا آدمیوں میں اس کی شمولیت کے نتیجے میں بہت سے اقوال وافعال اس سے منسوب ہو گئے، مثلاً ” خود کو جانو۔ مورخ ہیروڈوٹس کے مطابق تھیلیس ایک عملی ریاست کار تھا جس نے ایجیائی خطے کے آپونیائی شہروں کی فیڈ ریشن بنانے کی تجویز دی۔ شاعر کالی ماکس نے ایک روایت کے متعلق لکھا کر تھیلیس نے جہاز رانوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ دب اکبر کے بجائے دُب اصغر سے راہنمائی لیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے جیومیٹری کے علم کی مد سے اہرام مصر کی پیائش کی اور سمندر میں بحری جہازوں اور ساحل کا درمیانی فاصلہ ناپا۔ اگر چہ یہ کہانیاں غائبا فرضی ہیں، لیکن ان سے تھیلس کی شہرت کا اندازہ ضرور کیا جا سکتا ہے۔ فلسفی شاعر ز مینوفینز نے دعوی کیا کہ تھیلس نے اس سورج گرہن کی پیش گوئی کر دی تھی جس کی وجہ سے لیڈیا کے بادشاہ الیا تمیں اور میڈیا کے بادشاہ سائیکسا رس/ زرکسیز کی جنگ رُک گئی (28 مئی 585 ق م) تھیلس کو جیومیٹری کے پانچ کلیوں کا دریافت کنندہ قرار دیا گیا ہے:

1 کہ دائرے کا نصف اسے دو برابر حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔

کہ ایک مثلث میں آمنے سامنے والی دو برابر اطراف کے زاویے برابر ہوتے ہیں۔ کہ سیدھی لائنوں کو قطع کرنے والے خط کے متضاد زاویے برابر ہوتے ہیں۔

- کہ ایک نیم دائرے میں بنایا گیا زاویہ (Inscribed) قائمہ زاویہ ہوتا ہے۔ اور

کہ مثلث کا تعین اُس وقت ہوتا ہے جب اس کی ہیں (Base) اور بیس کے دوز اویے معلوم ہوں ۔ تاہم، ریاضی کے شعبے میں تھیلس کی کامیابیوں کے متعلق کوئی قطعی رائے قائم کرنا مشکل ہے کیونکہ قدیم دور میں مشہور دانا لوگوں کو ہی اکثر کامیابیوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا تھا۔ قطری فلسفیوں کے سلسلے میں تھیلس کا نمبر سب سے پہلے آتا ہے۔ مادے کی نوعیت اور اس کی بے شمار صورتوں میں

ایت کا مان لیں یا نا رہا ہے اور ان کی ان ریلی سے لیا اس کی مادہ کرنا ضروری تھا کہ ساری موجودات کا ظہور پانی میں سے کیسے ہوا۔ اور وہ دوبارہ اپنے ماخذ میں واپس لیسے جائیں گی۔ تھیلیس کے مطابق پانی کائنات میں شامل چیزوں کی صورت اختیار کرنے کی قوائیت رکھتا تھا۔ "Timaeus" میں افلاطون ایک دوری عمل بیان کرتا ہے۔ یہاں ایک تھیوری کا ذکر ملتا ہے۔ جو غالبا میلس کی تھی۔ اس نے بخارات بنے کے مل کا مشاہدہ کیاہوگا۔ ارسطو ونوک انداز میں بات کرتا ہے۔ تھیلس کہتا ہے کہ چیزوں کی فطرت پانی ہے۔“ یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کہ فیس نے اپنی تھیوریز میں دیوتاؤں کو کوئی کردار دیا تھا یا نہیں۔ ارسطو کے مطابق: چھیلس نے بھی اپنے خیالات کو ثابت کرنے کی خاطر اس مفروضے کو استعمال کیا کہ ایک لحاظ سے روح حرکت کی علامہ ہے، کیونکہ وہ کہتاہے کہ پھر ( مقناطیس یاlodestone) لوہے کو حرکت دینے کی وجہ سے روح کا حامل ہے۔ کچھ لوگوں کی رائے میں روح ساری کائنات پر محیط ہے۔ شاید ایلیے میں نے یہ کہ نظر پایا کہ ہر چیز دیوتاؤں سے بھری ہوئی ہے ۔ اس اقتباس میں کچھ لوگوں سے مراد لیوی پس، دیما قر یطلس، ڈایوجینز، ہیر اکیس اور الکامیون میں جو ٹیس کے بعد آئے۔ انہوں نے تھیس کا یہ نظریہ تبدیلیوں کے ساتھ اپنالیا کہ روح حرکت کی علت ہے اور ساری کائنات کو قائم رکھتی اور جان دار بناتی ہے۔ ارسطو نے جس انداز میں اس پر بات کی اس سے اصل معاملہ ابہام کا شکار ہو گیا۔ ہم نہیں جانتے کہ ارسطو نے کس بنیاد پر یہ نظری پیس سے منسوب کیا کہ تمام چیزیں دیوتاؤں سے بھری ہوئی ہیں۔ لیکن کچھ متقین کے خیال میں ارسطو نے ایسا کیا۔ البتہ یہ خیال درست نہیں۔ تھیلس نے پرانے دیوتاؤں کو مسترد کیا تھا۔ سقراط نے "Apology میں اجرام فلکی کو دیوتا بتایا اور نشاندہی کی عام تفہیم کے مطابق انہیں ہی دیوتا کہا جاتا تھا۔ تھیلس فلسفہ کے ایک نئے مکتبہ کا بانی تھا۔ ملتیس کے رہنے والے دو اور افراد اناکسی ماندر اور انا کسی مینز نے بھی کائنات کی تفہیم کے حوالے سے سوالات اٹھائے ۔ تینوں کا دور تقریباً ایک ہی تھا۔ انہوں نے مل کر ملیسی مکتبہ فکر تشکیل دیا: وہ بھی مادے کی فطرت اور تبدیلی کی نوعیت پر غور و فکر کرتے رہے لیکن ہر ایک نے زمین کا سہارا ایک مختلف چیز کو قرار دیا۔ غالبا وہ تینوں آپس میں بحث مباحثہ اور ایک دوسرے پر تنقید بھی کرتے تھے۔ ان کے درمیان ایک انوکھا تعلق نظر آتا ہے۔ غالبا ملیتسی مکتبہ میں فروغ پانے والا تنقیدی طریقہ کار تھیلیس نے ہی شروع کیا۔ تھیلس پہلا شخص ہے ( ہماری دستیاب معلومات کے مطابق) جس نے اسطوریاتی یا الہیاتی کی بجائے مادی بنیادوں پر فطری مظاہر کی توضیحات پیش کیں۔ اسطوریاتی ہستیوں کوکوئی کردار نہ دینے کی وجہ سے تھیلس کی تھیوریز کو بہ آسانی مسترد کیا جا سکتا تھا۔ لہذا اس کے مفروضات پر سائنسی انداز میں تنقید ہوئی تھیلس کی میراث کے نہایت قابل ذکر پہلو

مندرجہ ذیل ہیں:

جستجو نے علم برائے علم ؟

سائنسی طریقہ کار کی ترقی

عملی طریقوں کو اپنانا اور انہیں عمومی اصولوں کا روپ دینا۔


چھٹی صدی قبل مسیح میں تھیلس نے سوال اٹھایا: کائنات کا بنیادی جو ہر (مادہ) کیا ہے؟“ یہ سوال ہنوز جواب

ہے۔

سیلیس کی اہمیت اس امر میں مضمر ہے کہ اس نے پانی کو اساسی جو ہر کے طور پر منتخب کیا اور علتوں کو دیوتاؤں کی بجائے فطرت کے اندرکھو جا۔ اُس نے اسطورہ اور استدلال کی دنیاؤں کے درمیان پل بنایا۔