کنفیوشس(Confucius)

کنفیوشس(Confucius)



کنفیوشس(Confucius)
پیدائش: 551 قبل مسیح
وفات:479 قبل مسیح
ملک:چین
اہم کام: " گلدستہ تحریر"

ہر چیز حسین ہے مگر ہر کوئی اس حسن کو دیکھتا نہیں۔"   کنفیوشس

مفکر سیاسی شخصیت معلم اور چینی فکر کے مکتبہ RU کا بانی کنفیوشس چینی تاریخ میں ایک نہایت اہم آدمی ہے۔ گلدستہ تحریر" (Analects) کی صورت میں موجود اُس کی تعلیمات نے بعد کی صدیوں میں تعلیم اور مثالی انسان کے متعلق چینی افکار کی بنیاد رکھی بیسویں صدی کا ایک اہم چینی مورخ فنگ یولان چینی تاریخ پر کنفیوشس کے اثرات کو مغرب میں سقراط کے اثرات جیسا قرار دیتا ہے۔ کنفیوشس کی زندگی کے بارے میں دستیاب معلومات میں فسانے کو حقیقت سے الگ کرنا بہت مشکل، بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ چنانچہ زیادہ تر معلومات کو حض افسانہ خیال کرنا ہی بہتر ہو گا۔ دوسری صدی عیسوی کے اختتام پر کنفیوشس کے گرد موجود متعدد حکایات ہان سلطنت کے درباری مورخ نے اپنی کتاب "Shiji“ میں شائع کیں۔ یہ مجموعہ حکایات کنفیوشس کے اجداد کو شاہی ریاست سونگ کے ارکان بتاتا ہے۔ نیز یہ بھی بنایا گیا کہ کیسے کنفیوشس کے والدین نے مقدس پہاڑی Ni پر جا کر اس کی پیدائش کے لیے دعائیں کی تھیں۔ کنفیوشس نے فلا کت زدہ بچپن گزارا اور جوانی میں تحقیر کا سامنا کیا۔ بالغ ہونے پر اس نے مویشیوں کی دیکھ بھال اور منشی گیر ی جیسے پست کام کیے۔ کنفیوشس کی پیدائش اور زندگی کی طرح مرنے کے وقت عمر کے حوالے سے بھی محض کہانیاں ملتی ہیں۔ اس نے 72 سال عمر پائی۔ لیکن قدیم چینی ادب میں 72 ایک جادوئی عدد ہے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ اس نے تعلیم کیسے حاصل کی لیکن روایت کے مطابق اُس نے تاؤ مت کے گرولا ؤ دان کے پاس مذہبی رسوم کا مطالعہ کیا، چانگ ہونگ سے موسیقی پڑھی، بانسری بجانا بھی سیکھی ۔ غالباً درمیانی عمر میں اس کے گرد کچھ شاگرد جمع ہو گئے جو(LU) کے سیاسی معاملات میں بھی اس کی پیروی کرتے تھے۔ کنفیوشس کے شاگردوں کی تعداد میں بہت مبالغہ آرائی کی جاتی ہے۔ درباری مورخ( Sima Qlan )نے ان کی تعداد تین ہزار اور مینسیئس نے 70 بتائی ہے۔ شاید 70 یا 72 کا مطلب تھا بہت سارے (جیسا کہ عربی میں الف لیلہ و لیلہ کا ہے)۔ Lu کا ڈیوک ڈنگ جب تخت نشین ہوا تو کنفیوشس کی عمر 50 سال تھی۔ اس نے کنفیوشس کی صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے اسے پہلے پبلک ورک اور پھر جرائم کا وزیر بنایا۔ لیکن طبقہ اشراف کے ارکان اس سے نالاں ہوئے اور اسے عہدہ چھوڑ کر جلا وطن ہونے پر مجبور کر دیا۔ کنفیوشس اپنے شاگردوں کے ہمراہ ریاست Lu سے نکلا اور مختلف ریاستوں میں سفر کر کے کوئی ایسا حکمران تلاش کرتا رہا جو اس کی خدمات خرید لے۔ لیکن اُسے ہر جگہ سے مایوسی ہوئی اور کچھ مواقع پر تو مشکلات اور خطرات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ بہر حال، نہایت روایتی بیانات کے مطابق کنفیوشس 484 قبل مسیح میں Lu واپس آیا اور باقی زندگی تعلیم دینے،کتاب نغمات کتاب دستاویزات ترتیب دینے اور LU کا روز نامچہ لکھنے میں صرف کی۔ ان کتب کے ساتھ کنفیوشس کے تعلق نے اسے بعد کے اساتذہ مورفین، اخلاقی فلسفیوں، ادبی محتقین اور دیگر اہل دانش کا روحانی جد امجد بنادیا۔
  گلدستہ تحریر کی کتاب وہم کے بارے میں خیال ہے کہ وہ کنفیوشس کی شخصیت اور ذات کے متعلق بہترین معلومات فراہم کرتی ہے۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں کنفیوشس کو ایک انوکھی شخصیت اور ایک رشی کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا۔ چوتھی صدی عیسوی کے اختتام پر مینسیئس لکھتا ہے کہ "کنفیوشس کے بعد اس جیسا کوئی آدمی پیدا نہیں ہوا ۔ کنفیوشس اس کے پیرو کار دیگر مفکرین کی تنقید کا نشانہ بھی بنے۔ Zhuangzi کے مصنفین نے کنفیوشس اور اس سے منسوب تعلیمات کی پیروڈی کرنے میں خاص طور پر مسرت محسوس کی ۔ لیکن وہ اس کی عظمت کو تسلیم کیے بغیر بھی نہ رہ سکے۔ 
کنفیوشس کی تعلیمات اور شاگردوں کے ساتھ مکالمات ” گلدستہ تحریر میں شامل ہیں۔ یہ کتاب غالبا دوسری صدی قبل مسیح میں اپنی موجودہ صورت میں آئی۔ اگر چہ وہ یقین رکھتا تھا کہ لوگ آسمان کی قائم کردہ حدود و قیود کے اندر ہی اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ انسان اپنے اعمال اور بالخصوص دوسروں کے ساتھ سلوک کے خود ہی ذمہ دار ہیں۔ آسمان سے مراد ہستی مطلق کے علاوہ فطری  ضابطے بھی ہیں ۔  ہم اپنی زندگی کے دورانیے میں ترمیم لانے کے لیے بمشکل ہی کچھ کر سکتے ہیں لیکن اپنے اعمال کا تعین ہم خود ہی کرتے ہیں۔ 
کنفیوشس نے اپنی تعلیمات کو قدیم زمانے سے چلے آرہے اسباق کی صورت میں پیش کیا۔ وہ " موجد کی بجائے مبلغ اور پیغام بر“ ہونے کا دعویٰ کرنے کے علاوہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس کا سارا کام ” قدما کی محبت پر مبنی ہے۔“ اپنے نظریات کی بنیاد قدیم روایت پر ہونے کے اس دعوے نے بعد کے چینی مفکرین پر گہرے اثرات مرتب کیے اور انہوں نے خود بھی یہی انداز اپنایا۔ لیکن گلدستہ تحریز" کے تمام مشمولات کو محض پرانے خیالات کی تدوین ہی نہیں سمجھنا چاہیے۔ یقیناً کنفیوشس نے اپنی طرف سے بھی کافی حصہ ڈالا۔ 
کنفیوشس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ آسمان یا ہستی مطلق کے ساتھ ایک خصوصی تعلق کا حامل ہے۔ اور پچاس سال کی عمر میں دو جان گیا تھا کہ "آسمان" نے اسے کیا ذمہ داری سونپی ہے۔ اس نے اپنے پیرو کاروں کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ آسمان کو نذرانے پیش کرنے میں ہرگز کوتاہی نہ کریں۔ کچھ محققین کی نظر میں آسمان کے لیے کنفیوشس کے احترام اور ارواح کے وجود کے حوالے سے اس کی تشکیکیت کے درمیان تضاد پایا جاتا ہے۔ لیکن " گلدستہ تحریر میں وہ شک کا شکار نظر نہیں آتا ۔ بلکہ وہ ارواح کا احترام کرتا اور کہتا تھا کہ فانی انسانوں کی نسبت ارواح کی خدمت کرنا کہیں زیادہ مشکل اور پیچیدہ معاملہ ہے۔
کنفیوشس کا سماجی فلسفہ بنیادی طور پر اخوت (ren) یا دوسروں سے محبت کے تصور کے گرد گھومتا ہے۔ دوسروں کے لیے اس فکر مندی کا اظہار زریں اصول کی مختلف صورتوں پر عمل کرنے سے ہوتا ہے: ” جو اپنے لیے اچھا نہیں سمجھتے، وہ دوسروں کے ساتھ بھی نہ کرو۔ چونکہ تم اپنے لیے کامیابی کے متمنی ہو، اس لیے دوسروں کو بھی کامیابی حاصل کرنے میں مدد دو "
اس نے والدین اور دیگر عزیز واقارب سے لگاؤ اور وابستگی کو اس اصول پر عمل درآمد کی نہایت بنیادی صورت قرار دیا۔ خو دضبطی سیکھنے کا عمل Li یعنی سعادت مندی کی رسوم اور قوانین میں مہارت حاصل کرنے پر مشتمل ہے۔ تاہم، دستور کی اطاعت کرنے کا مطلب اپنی خواہشات کو دبانا نہیں بلکہ انہیں اپنے خاندان اور برادری کی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔ کنفیوشس اور اس کے متعدد پیروکاروں نے تعلیم دی کہ ہم خواہشات کا تجربہ کرنے کے ذریعہ ہی منضبط معاشرے کو ممکن بنانے والی سماجی پابندیوں کی اہمیت جانتے ہیں۔ رسومات پر کنفیوشس کے اصرار کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ کوئی رسومات پرست تھا اور عبادتی رسوم اور سماجی میل جول پر ہر قیمت پر عمل کرنے پر زور دیتا تھا۔ اس کے برعکس کنفیوشس نے تعلیم دی کہ اگر کوئی شخص دوسروں کی بھلائی میں دلچسپی نہیں رکھتا تو اس کی رسومات کا کوئی فائدہ نہیں۔ رسومات مکمل ایمان داری اور بھگتی کے ساتھ ادا کر نالازمی ہے۔
کنفیوشس کے سیاسی فلسفہ کی جڑیں بھی اس یقین میں ہیں کہ حکمران کو خود ضبطی سیکھنی چاہیے کہ اپنی مثال پیش کر کے عوام پر حکومت کرنی چاہیے اور یہ کہ عوام کے ساتھ محبت کا برتاؤ کرنا چاہیے۔ تاہم لگتا ہے کہ اس کے دور میں قانونی وتعزیری طریقوں کے حامیوں کو حکومتی حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہو رہی تھی ۔ اس کے لیے سب سے زیادہ باعث تشویش بات ی تھی کہ سیاسی ادارے مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے۔ کنفیوشس کے خیال میں اس انحطاط کی وجہ نا اہل افراد کاحکومتی اور سرکاری عہدوں پر فائز ہونا تھا۔ ایک ریاست (Qi) کے حکمران نے جب اُس سے پوچھا کہ اچھی حکومت کے بنیادی اصول کیا ہیں تو کنفیوشس نے جواب دیا " اچھی حکومت وہ ہے جب حکمران حکمران ہوں، وزیر وزیر ہو، باپ باپ ہو اور بیٹا بیٹا ہو۔“ تعلیم اور مطالعہ پر اصرار کنفیوشس کی فکر کا ایک نشان امتیاز ہے۔ وہ ان لوگوں کو برا بھلا کہتا ہے جو فطری تقسیم یا بصیرت پر یقین رکھتے تھے۔ اس کے مطابق طویل، وسیع او محتاط مطالعہ ہی کسی موضوع کا حقیقی ادر اک دیتا ہے۔ کنفیوشس کی نظر میں مطالعہ کا مطلب ایک اچھا استاد ڈھونڈنا اور اس کے قول و فعل کی نقل کرنا ہے۔ اچھا استاد عمر میں بڑا اور ماضی کے دسا تیر و قدیم رواجوں سے آشنا ہوتا ہے۔ اگر چہ کچھ جگہوں پر اس نے حد سے زیادہ غور وفکر اور مراقبہ کے خلاف خبر دار کیا،
لیکن زیادہ ترسیکھی ہوئی چیز پر غور وفکر اور مطالعہ کی درمیانی راہ اپنانے کا ہی حامی دکھائی دیتا ہے۔ 
کہا جاتا ہے کہ کنفیوشس کے تین ہزار شاگرد تھے جن میں سے صرف 70 ہی اس کے بتائے ہوئے فنون میں کمال حاصل کر سکے۔ کنفیوشس کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے ہر ایک متمنی کوتعلیم دینے کو تیا ر ہا۔ اس نے اپنے شاگردوں کو اخلاقیات، درست گفتار ، حکومت اور اعلیٰ فنون کا درس دیا۔ وہ اخلاقیات کے اہم ترین موضوع پر تفصیلاً وعظ نہیں دیتا، بلکہ سوالات پیش کرتا، کلاسیکی کتب میں سے حوالے دیتا یا پھر مثالیں پیش کرتا ہے۔ اگر میں نے ایک کو نہ پکڑا ہو اور طالب علم باقی تین کونے نہ تھام لے تو میں سبق آگے نہیں بڑھاتا۔“ کنفیوشس کے بعد کی صدیوں کے دوران مختلف چینی مفکرین اس کے خیالات کو آگے بڑھاتے اور مسترد یا قبول کرتے رہے، جیسا کہ ہم لاؤزے اور مینسیس کے ضمن میں دیکھیں گے۔ یہاں اتنا کہنا مقصود ہے کہ کنفیوشس کے بغیر چینی فلسفہ کا تصور کرنا مشکل ہے۔


Confucius
Birth: 551 BC
Death: 479 BC
Country: China
Major work: "Essays"

Everything is beautiful, but not everyone sees that beauty." Confucius

Confucius, the thinker, political figure, educator, and founder of the RU school of Chinese thought, is one of the most important figures in Chinese history. His teachings in the form of the "Analects" laid the foundation for Chinese ideas about education and the ideal man in later centuries. As he states. It is very difficult, if not impossible, to separate fiction from fact in the information available about Confucius' life. Therefore, it is best to treat most of the information as fiction. At the end of the second century AD, Confucius The numerous stories surrounding the Han Dynasty court historian in his book " Published in Shiji. This collection of stories describes Confucius' ancestors as members of the Song imperial state. It also recounts how Confucius's parents went to the sacred Mount Ni and prayed for his birth. Confucius had a spoiled childhood and faced humiliation in his youth. As an adult, he did menial jobs like tending cattle and being a druggist. As with Confucius's life and age at death, there are mere anecdotes. He lived to be 72 years old. But in ancient Chinese literature, 72 is a magical number. We don't know how he got his education, but according to tradition, he studied religious rituals with the Taoist guru Wu Dan, studied music with Chang Hong, and learned to play the flute. Probably in middle age, some disciples gathered around him who also followed him in the political affairs of (LU). The number of disciples of Confucius is greatly exaggerated. Courtier Historian (Sima Qlan) has given their number as 3000 and Mencius as 70. Perhaps 70 or 72 meant many (as in Arabic al-Laila wa Laila). Confucius was 50 years old when Duke Ding of Lu ascended the throne. He recognized Confucius' talents and made him first Minister of Public Works and then Minister of Crime. But members of the aristocracy were displeased with him and forced him to leave his post and go into exile. Confucius left the state of Lu with his disciples and traveled to different states looking for a ruler who would buy his services. But he was disappointed everywhere and faced difficulties and dangers on some occasions. However, according to the most traditional accounts, Confucius returned to Lu in 484 BC and spent the rest of his life teaching, compiling books and documents, and writing the Lu daily journal. Confucius's association with these books led him to the later teachers Morphin,
  The Book of Illusion is believed to provide the best insight into Confucius' personality and character. In the 4th century BC, Confucius was recognized as a unique figure and a sage. At the end of the fourth century AD, Mencius writes that "there was no man like him after Confucius. Confucius was also criticized by other thinkers who followed him. The authors of the Zhuangzi parodied Confucius and the teachings attributed to him. He felt particularly happy, but he could not help but acknowledge his greatness. 
Confucius' teachings and dialogues with his disciples are included in the Anthology. This book probably came into its present form in the 2nd century BC. Although he believed that people live their lives within the boundaries and limitations established by heaven. But he says that humans are responsible for their own actions and especially for their treatment of others. The sky refers to the absolute entity as well as the natural rules. We can hardly do anything to change the course of our lives, but we determine our own actions. 
Confucius presented his teachings in the form of lessons from ancient times. In addition to claiming to be "a preacher and a messenger rather than an inventor," he also says that all his work is "based on the love of karma." This claim to base his ideas on the ancient tradition inspired later Chinese thinkers. had profound effects on him and he himself adopted the same style. But the whole contents of "Guldsta Tahreez" should not be understood as mere editing of old ideas. Confucius, of course, also made a considerable contribution. 
Confucius also claimed to have a special relationship with Heaven or the Absolute Being. And at the age of fifty he knew what duty "Heaven" had entrusted to him. He also instructed his followers never to neglect to offer offerings to heaven. Some researchers see a contradiction between Confucius' reverence for heaven and his skepticism about the existence of spirits. But he does not appear to be in doubt in the "Gulsta" writing. Rather, he respected the spirits and said that serving spirits is a much more difficult and complicated matter than serving mortals.
Confucian social philosophy revolves primarily around the concept of brotherhood (ren) or love for others. This concern for others is expressed by following various forms of the Golden Rule: "Do not do unto others what you would not do unto yourself." "Since you want to succeed for yourself, help others to succeed."
He described attachment and commitment to parents and other dear relatives as the most basic form of implementation of this principle. The process of learning self-discipline consists of mastering the rituals and laws of Li, meaning happiness. However, obeying the constitution does not mean suppressing one's desires but aligning them with the needs of one's family and community. Confucius and many of his followers taught that we know the importance of the social constraints that make an orderly society possible only by experiencing desires. Confucius's insistence on ritual does not mean that he was a ritualist and insisted on practicing ritual and social interaction at all costs. In contrast, Confucius taught that if a person is not interested in the well-being of others, his rituals are useless. It is obligatory to perform the rituals with complete honesty and devotion.
Confucian political philosophy is also rooted in the belief that a ruler should learn self-control, rule the people by example, and treat the people with love. However, it seems that during his time the advocates of legal and punitive methods were getting a lot of acceptance in government circles. What was of greatest concern to him was that the political institutions had been completely destroyed. According to Confucius, the cause of this degradation was the holding of government and official positions by unqualified people. When asked by the ruler of a state (Qi) what the basic principles of good government were, Confucius replied " Good government is when the ruler is the ruler, the minister is the minister, the father is the father and the son is the son.” The insistence on education and study is a hallmark of Confucian thought. He berates those who believed in natural dispensation or intuition. According to him, only a long, wide, and careful study gives a true understanding of a subject. According to Confucius, study means finding a good teacher and imitating his words and deeds. A good teacher is older and familiar with the ancient traditions of the past. Although in some places he warned against excessive contemplation and meditation,
But he seems to be in favor of adopting the middle path of contemplation and study of what is most learned. 
It is said that Confucius had 3,000 disciples, of whom only 70 were able to achieve perfection in the arts he taught. Confucius was willing to teach every aspirant from any class. He taught his disciples ethics, correct speech, government, and the high arts. He does not preach in detail on the most important topic of ethics, but rather poses questions, quotes from classic books or gives examples. If I do not hold one and the student does not hold the other three corners, I do not continue the lesson.” During the centuries after Confucius, various Chinese thinkers continued to advance and reject or accept his ideas, such as We shall see in the context of Laoze and Meneses. The point here is that it is difficult to imagine Chinese philosophy without Confucius.