گوتم بدھ/سدھارتھ(BUDDHA)


گوتم بدھ/سدھارتھ(BUDDHA)

پیدائش: 563   قبل مسیح/2585سال قبل
وفات:  483 قبل مسیح/2505سال قبل
ملک:ہندوستان
اہم کام:(دھمپد)

""
دانش کی زندگی گزارنے والے کو موت سے بھی خوف نہیں آتا۔“
بدھ


گوتم بدھ
ہندوستانی فلسفی اور بدھ مت کے بانی گوتم بدھ لُمینی ، نیپال میں پیداہوئے۔وہ جنگجو قبیلے شاکیہ کے سردارکا بیٹا تھا۔ اس کا نام سدھارتھ رکھا گیا اور بعد میں شاکیہ ُمنی کے لقب سے بھی مشہور ہوا۔ گوتم بدھ کی زندگی کے بارے میں تمام بیانات اُس کی موت کے کئی برس بعد مورخین کی بجائے پیرو کاروں نے لکھے۔ چنانچہ اس کے حالات زندگی میں حقیقت کو افسانے سے الگ کرنا بہت مشکل ہے۔ مغربی محققین نے تاریخی عیسی کی طرح " تاریخی بدھ کو تلاش کرنے کی بھی بہت کوشش کی ہے۔ دستیاب معلومات کے مطابق گوتم بدھ کا بچپن اور لڑکپن شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور آسائشوں کے ماحول میں گزرا۔ برہمنوں نے پیش گوئی کر دی تھی کہ شاکیہ سردارشدھودھن کا بیٹا مرتاض بن جائے گا۔ چنانچہ باپ نے اس دنیاوی زندگی میں ہی مشغول رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ خود بدھ نے اس بارے میں بتایا تھا: "بھکشو ! میری پرورش نہایت پر آسائش ماحول میں ہوئی۔ میرے باپ کے محل میں کنول کے تالاب بنائے گئے۔ ایک تالاب میں نیلے، دوسرے میں سرخ اور تیسرے میں سرخ کنول تھے۔ سردی گرمی اور برسات کا موسم گزار نے کے لیے میری تین رہائش گاہیں تھیں۔ برسات کے چار ماہ کے دوران میری خاطر مدارت کے لیے گلوکار عورتیں موجود ہوتیں ۔ " 16 برس کی عمر میں سدھارتھ نے اپنی کزن یشودھرا سے شادی کی ۔ شدھودھن کی سر توڑ کوششوں کے باوجود سدھارتھ کا ذہن کسی اور ہی دنیا میں بھٹکتا رہتا۔ 
سدھارتھ کی زندگی کا اہم موڑ اس وقت آیا جب وہ 29 برس کا ہو چکا تھا۔ ایک روز اپنے رتھ میں کہیں جاتے ہوئے اس نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا اور بڑھاپے کے دکھ سے آگاہ ہوا۔ اسی طرح مختلف موقعوں پر اس کا تعارف بیماری اور موت سے ہوا۔ ایک روز اس نے ایک مرتاض کو دیکھا اور اس کے چہرے پر طمانیت کے تاثر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ کہانی کے مطابق مرتاض کو دیکھ کر واپس آتے ہوئے راستے میں سدھارتھ کو اپنے بیٹے کے پیدا ہونے کی خبر ملی اور اس کا نام راہول یعنی زنجیر یا بندھن رکھا۔ 
 دنیا کے ساتھ ایک نیا اور مضبوط بندھن قائم ہونے کے لمحے میں ہی سدھارتھ نے تمام دنیاوی بندھن توڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ آدھی رات کے وقت اس نے اپنے نوکر کوحکم دیا کہ گھوڑے پر زین ڈالے اور اپنی محو خواب بیوی اور بیٹے کو آخری مرتبہ دیکھنے کے بعد شہر ( کپل وستو ) سے چلا گیا۔
 راہبانہ زندگی کا آغاز کرنے پر سدھارتھ سارے شمالی ہندوستان میں گھومتا پھرتارہا۔ اس نے ہندومت کا مطالعہ کیا اور کچھ مشہور برہمن اُستادوں کی شاگردی اختیار کی۔ لیکن ہندو نظام ذات پات قابل نفرت اور ہندو راہبانیت بیکار معلوم ہوئی۔ سدھارتھ ابدی سچائی کی تلاش میں تھا کہ جو تمام دکھوں اور دنیا دی بندھنوں سے نجات دلا دے۔ اسی تلاش کے دوران وہ( گیا) کے قریب پہنچا اور تقریبا چھ برس تک وہاں ریاضتوں اوکٹھن مشقوں میں مشغول رہا۔ ان ریاضتوں کے باعث وہ نہایت دبلا اور کمزور ہو گیا۔ آخر اس نے کٹھن ریاضتوں کو بھی ترک کیا اور یہ تہیہ کر کے ایک شجر پیپل کے نیچے بیٹھے گیا کہ اس وقت تک یہاں سے نہیں اٹھے گا جب تک کہ نروان نہ پالے۔ اس کی یہ مراد پوری ہوئی اور وہ بدھ یعنی بصیرت یافتہ بن گیا۔
نروان پالینے کے بعد گوتم بدھ نے سوچا کہ اس بصیرت کو دوسرے انسانوں تک بھی پہنچانا چاہیے۔ چنانچہ اُس نے پیروکار بنائے جو بڑھتے بڑھتے سنگھ یعنی جماعت کی شکل اختیار کر گئے۔ بدھ نے وہ راستہ دیکھ لیا تھا جو تمام دکھوں کی فنا اور نجات اورنروان تک لے جاتا تھا۔ وہ سار نا تھ کی طرف گیا اور ہرن باغ میں پہلا وعظ کیا: "اے بھکشوؤ، دنیا میں دو انتہاؤں سے بچنا چاہیے۔ ایک خواہشات کے پیچھے بھاگنا اور نفسانی لذات میں کھو جاتا، اور دوسری کٹھن ریاضتیں اور خود از یتی۔ اس نے ایک درمیانہ راستہ تجویز کیا ۔یہ درمیانہ راستہ ان دو انتہاؤں سے بچنا ہے۔ اس کے ذریعہ واضح سوچ اور بصیرت حاصل ہوتی ہے۔“
بدھ سے منسوب تعلیم اس کے شاگردوں نے زبانی بحثو ں اور وعظوں کے ذریعہ پھیلائی۔ بدھ کی موت کے بعدبودھی مجلسوں نے اس کی حقیقی اور درست تعلیمات کا تعین کرنے کی کوشش کی تھی۔ 
یہ کہا جاسکتاہے کہ بدھ نےاپنی فکری عمارت کی بنیاد انسانی دکھ کی حقیقت پر رکھی ہستی باعث دکھ ہے۔ کسی فرد کو بنانے والے حالات ہی دکھ کو جنم دیتے ہیں۔ فردیت تحدید (Limitation) پر منتج ہوتی ہے۔ تحدید سے خواہش پیدا ہوتی ہے اور خواہشات ناگز یرطور پر دکھ پیدا کرتی ہیں کیونکہ خواہش کر دہ چیز عارضی، ناپائیدار اور فانی ہوتی ہے۔ خواہش کر دہ چیز کی نا پائیداری ہی مایوس اور دکھ کا باعث ہے۔ بدھ کے بتائے ہوئے رستے پر چلنے سے دکھ کو جاری رکھنے والی لا علمی دور کی جاسکتی ہے۔ بدھ کا عقیدہ یا سیت پر مبنی نہیں تھا۔ چیزوں کی ناپائیداری کے درمیان زندگی گزارنے والے نا پائیدار انسان را و نجات کے متلاشی ہیں۔ بدھ کے مطابق بیرونی اشیا یا افراد کی نفسی جسمانی حقیقت مائیکر وسیکنڈز (دھم) کے تسلسل پرمشتمل ہے۔ بدھ نے روایتی ہندوستانی فکری دھارے سے انحراف کرتے ہوئے چیزوں کی اساسی یا مطلق حقیقت پر زور نہ دیا۔ نیز ،اُپنشدوں کی تھیوریز کے برعکس وہ ایک مابعد الطبیعاتی جوہر کے طور پر روح کی ہستی اختیار کرنے کی بات نہیں کرتا لیکن اس نے ذات کے وجود کو ایک عملی اور اخلاقی مفہوم میں عمل کا موضوع تسلیم کیا۔ زندگی ہستی کا ایک دھارا ہے، بوداور نابود کا ایک تسلسل کچھ بھی پائیدار نہیں اور اگر صرف ذات یا آتما پائیدار کہلانے کی حقدار ہے تو آتما کچھ بھی نہیں۔ا ناتما یا لا روح کے تصور کو واضح کرنے کے لیے بودھیوں نے انسانی وجود کے پانچ مشمولات کا نظریہ پیش کیا:

  •  -1 جسمانی حالتیں (روپ)
  •  2- احساسات (ودان) 
  • 3- تصور گری؛
  • 4- ذہنی حالتیں (سنکھار اور ) 
  • 5- شعور ( وجنان)۔
انسانی و جو محض ان پانچ چیزوں کا مجموعہ ہے جن میں سے کوئی بھی آتما یا روح نہیں۔ فرد غیر مختتم تبد یلی کا عمل ہے جس کی اپنی کوئی حقیقت نہیں۔ 
ان پانچ بنیادی حقیقتوں سے آگاہی کے نتیجے میں بدھ نے چار اعلیٰ سچائیاں بیان کیں ۔ دکھ کی سچائی، یہ سچائی کا منبع ہمارے اندر پلنے والی خواہشوں میں ہے، یہ سچائی کہ ان خواہشات کو ختم کیا جا سکتا ہے، اور چوتھی سچائی یہ کہ ایک مخصوص باضابطہ طریقے پر عمل کرنے کے ذریعہ ہی خواہشات کو ختم کرناممکن ہے۔ چنانچہ اس میکنزم کی تفہیم ہونا لازمی ہے جسکے "  تحت کسی انسان کی نفسی ذہنی ہستی متشکل ہوتی ہے ، ورنہ انسان ہمیشہ ہمیشہ سمسار کے باعث دکھ چکر میں رہیں گے۔
 لہذا بدھ نے منحصر ابتدا ( پتیکا سمو پاد) کا قانون وضع کیا جس کے ذریعہ ایک حالت دوسری پر منتج ہوتی ہے۔ یوں علت و معلول کا سلسلہ قائم ہوتا جاتا ہے۔ اس زنجیر کی بارہ کڑیاں یہ ہیں:لاعلمی
  • 1- لاعلمی ( او جایا اور یا)؛ 
  • 2-کرم کے پھل (سنکھار )؛ 
  • 3-شعور (و جنان)؛
  •   4-روپ اور جسم (نام روپ؛
  • 5-پانچ حیاتی اعضاء اور ذہن ( سلامتین )؛
  •  6-تعلق ( پھستا )؛
  •  7-حسیاتی رد عمل (دیدان)؛
  • 8-خواہش ( تنہا ) ؛
  • 9-کسی چیز کی جستجو ( آپادن) ؛
  • 10-زندگی کی جانب سرگرمی (بھاو )؛
  •  11-پیدائش ( جاتی)؛
  •  12- بڑھاپا وموت( جرامون )

یوں حیاتی وجود سے وابستہ دکھ کو علت و معلول کے ایک سلسلے کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔

 اس قانون کی آگہی حاصل ہو جانے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنم مرن کے چکر، دکھ اور موت سے نجات کیسے ممکن ہے۔ یہاں اخلاقی رویے کا ورود ہوتا ہے۔ ساری ہستی پر دکھ کے غلبے اور زندگی کی حقیقت جان لینا ہی کافی نہیں ؛ ایک تطہیر اور پاکیزگی بھی لازمی ہے جو اس عمل پر غلبہ پانے کے قابل بناتی ہے۔ یہ کام آٹھ نکاتی راستے پر چلنے کے ذریعہ کرنا ممکن ہے جس میں مندرجہ ذیل چیزیں شامل ہیں۔
  •  1-درست خیالات،
  • 2- درست ارادے، 
  • 3-درست گفتار، 
  • 4-درست طرز عمل، 
  • 5-درست انداز حیات، 
  • 6-درست کوشش، 
  • 7-درست سوچیں 
  • 8- درست ریاضتی کامیابی 
 درست ( راست یا موزوں) کی اصطلاح بدھ کی ہدایات اور دیگر تعلیمات کے درمیان تمیز کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ 

بدھ کے ہاں مذہبی کارگزاری کا مقصد التباس انا سے چھٹکارا حاصل کر کے خود کو اس فانی دنیا کی زنجیروں سے آزاد کروانا ہے۔ اس میں کامیابی پانے والا شخص جنم مرن کے چکر سے نجات حاصل کرتا اور نروان یا بصیرت پاتا ہے۔ یہ بہشت یا آسمانی دنیا نہیں بلکہ مطلق مقصد ہے۔نروان کا لفظی مطلب( بجھا ہوا) ہے جینے کا عمل جلتی ہوئی آگ کے مثل ہے۔ اس کا علاج فریب، جذبات اور خواہشات کی آگ کو گل کرنا ہے۔ بدھ یا نروان یافتہ وہ شخص ہے جس میں یہ شعلہ بجھ گیا ہو۔ 
بدھ نے یہ مطلق منزل پالینے والے افراد کے مقدر کے حوالے سے سوالات کا جواب نہ دیا حتی کہ وہ یہ بتانے سے بھی انکار کرتا ہے کہ آیا یہ پاکیزہ رشی موت کے بعد بھی زندہ رہیں گے یا معدوم ہو جائیں گے۔اس نے کہا کہ یہ سوالات نجات کے راستے پر عمل کرنے سے متعلقہ نہیں تھے اور عام انسانی وجود کی حدود میں رہتے ہوئے ان کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔
 در حقیقت بدھ کی تعلیمات ذات پات کے نظام پر مشتمل برہمن مت کے خلاف عوام کے احتجاج کی نمائندگی کرتی ہیں جو قربانیوں اور عبادت کی پیچیدہ رسوم سے تنگ آچکے تھے۔ بدھ نے سماجی تبدیلی یا فطرت کی طاقتوں کے خلاف لڑنے کی بجائے اخلاقی کمال میں نجات ڈھونڈی۔ وہ خدا اور ویدک مذہب سے منکر تھا لیکن سمسار ( جنم مرن کے چکر ) اور کرم کے متعلق روایتی نظریات کو قبول کر لیا۔ اس نے اتنا ضرور کہا کہ نئے 
جنم کا دارو مدار اچھے یا بُرے اعمال پر ہے نہ کہ ذات اور قربانیوں پر۔


Gautama Buddha/Siddhartha (BUDDHA)

Birth: 563 BC/2585 years ago
Death: 483 BC/2505 years ago
Country: India
Main Function: (Dhampad)

""
He who lives a life of knowledge is not afraid of death."
Wednesday


Gautama Buddha
Gautama Buddha, the Indian philosopher and founder of Buddhism, was born in Lumini, Nepal. He was the son of a Shakya warrior chieftain. He was named Siddharth and later came to be known as Shakyamuni. All accounts of the life of Gautama Buddha were written years after his death by followers rather than historians. So it is very difficult to separate fact from fiction in his life situation. Western researchers have also tried hard to find a "historical Buddha" similar to the historical Jesus. According to the available information, Gautama Buddha's childhood and boyhood were spent in an environment of opulent luxury and comfort. His son will become an ascetic. So the father tried his best to keep him engaged in this worldly life. The Buddha himself said this: "Monks! I was brought up in a very comfortable environment. Lotus ponds were made in my father's palace. One pond had blue, another red, and the third red lilies. I had three residences for winter, summer, and rainy seasons. During the four months of the rainy season, women singers were there to take care of me. "At the age of 16, Siddharth married his cousin Yashodhara. Despite Siddhodhana's best efforts, Siddharth's mind kept wandering to another world. 
The turning point in Siddharth's life came when he was 29 years old. One day while going somewhere in his chariot, he saw an old man and became aware of the sorrow of old age. Similarly, he was introduced to disease and death on various occasions. One day he saw an ascetic and could not help but be moved by the expression of serenity on his face. According to the story, on the way back from seeing Murtaza, Siddharth got news of the birth of his son and named him Rahul, meaning chain or bond. 
 At the moment of establishing a new and stronger bond with the world, Siddhartha decides to break all worldly ties. At midnight he ordered his servant to saddle his horse and left the city (Kapil Vastu) after seeing his dream wife and son for the last time.
 After taking up the monastic life, Siddhartha wandered all over northern India. He studied Hinduism and became a disciple of some famous Brahmin masters. But the Hindu caste system was found to be abhorrent and Hindu monasticism useless. Siddhartha was searching for the eternal truth that would free him from all suffering and worldly bonds. In the course of this search, he came near (Gaya) and for about six years engaged in the auspicious octane exercises there. Due to these austerities, he became very thin and weak. Finally, he gave up even the severe austerities and sat down under a poplar tree determined not to rise from there until he attained Nirvana. His wish was fulfilled and he became a Buddha.
After attaining Nirvana, Gautama Buddha thought that this insight should be imparted to other human beings as well. So he created followers who grew into a Sangh, a congregation. The Buddha had seen the path that led to the annihilation of all suffering and salvation and nirvana. He went to Saranath and gave the first sermon in the Deer Garden: "O monk, two extremes must be avoided in the world. One is running after desires and getting lost in sensual pleasures, and the other is severe austerities and self-abnegation. He suggested a middle way. This middle way is to avoid these two extremes. It leads to clear thinking and insight."
The teachings attributed to the Buddha were spread by his disciples through oral discourses and sermons. After the Buddha's death, Buddhist councils attempted to determine the true and correct teachings of the Buddha. 
It can be said that the Buddha based his intellectual edifice on the reality of human suffering. It is the circumstances that make up an individual that gives rise to suffering. Individuality leads to limitation. Limitation creates desire and desires inevitably create suffering because the desired object is temporary, impermanent, and impermanent. The impermanence of the desired object is the cause of disappointment and sorrow. By following the path taught by the Buddha, the ignorance that perpetuates suffering can be removed. The Buddha's faith was not based on a set. Living amidst the impermanence of things, impermanent human beings seek salvation. According to the Buddha, the psychophysical reality of external objects or persons consists of a continuum of microscopic seconds (Dhamma). The Buddha, deviating from traditional Indian thought, did not emphasize the essential or absolute reality of things. Also, unlike the theories of the Upanishads as a metaphysical essence, He does not speak of the existence of the soul, but he recognizes the existence of the self as the subject of action in a practical and ethical sense. Life is a stream of being, a continuum of impermanence and impermanence. Nothing is permanent, and if only self or Atma deserves to be called permanent, then Atma is nothing. Proposed a five-content theory:

  •  -1 Physical conditions (Rup)
  •  2- Emotions (Vedan) 
  • 3- Imagination;
  • 4- Mental states (sankhar and ) 
  • 5- Consciousness.
Humanity is merely a combination of these five things, none of which is Atma or Spirit. The individual is a process of unending change that has no reality of its own. 
As a result of awareness of these five basic realities, the Buddha enunciated the Four Noble Truths. The truth of suffering, the source of truth in the desires that arise within us, the truth that these desires can be eradicated, and the fourth truth that desires can be eradicated only by following a certain formal method. Therefore, it is necessary to understand the mechanism under which the soul-mental entity of a human being is formed, otherwise humans will always remain in the cycle of suffering due to samsara.
 So the Buddha formulated the law of dependent origination (Patika samupada) by which one condition leads to another. Thus the chain of cause and effect is established. The twelve links of this chain are: Ignorance
  • 1- Ignorance (o jaya or ya); 
  • 2-fruits of Karma (sankhar); 
  • 3- Consciousness (and genius);
  •   4- Form and Body (Naam Rupa;
  • 5-The five vital organs and the mind (Salaatin);
  •  6-Relationship (Fastha);
  •  7-Emotional reaction (perception);
  • 8-desire (alone);
  • 9-The pursuit of something (Apadan);
  • 10-Activity towards life (Bhav);
  •  11-Birth (Jati);
  •  12- Old age and death (Jaramon)

Thus, the suffering associated with living existence is described in the form of a chain of cause and effect.

 After realizing this law, the question arises as to how liberation from the cycle of birth and death, suffering and death is possible. This is where ethical behavior comes in. It is not enough to know the reality of life and the domination of suffering on the whole being; purification and purification are also necessary which enables the process to be mastered. This can be done by following an eight-point path that includes the following.
  •  1- Right thoughts,
  • 2- Right intentions, 
  • 3- correct speech, 
  • 4- the correct way of acting, 
  • 5- The arrangement of life, 
  • 6- Correct effort, 
  • 7-Think right 
  • 8- True austerity of success 
 The term correct (right or proper) is used to distinguish between the teachings of the Buddha and other teachings. 

For the Buddha, the purpose of religious practice is to free oneself from the shackles of this mortal world by getting rid of the ego. A person who succeeds in this gets rid of the cycle of birth and death and attains nirvana or enlightenment. It is not heaven or the heavenly world but the absolute goal. Nirvana literally means (extinguished). The act of living is like a burning fire. The remedy is to extinguish the fire of delusion, passion, and desire. Buddha or Nirvana is one in whom this flame has been extinguished. 
The Buddha did not answer questions regarding the destiny of those who attained this absolute goal, even refusing to say whether these sages would live on after death or perish. He said: These questions were not relevant to practicing the path of salvation and could not be answered within the confines of ordinary human existence.
 In fact, the Buddha's teachings represent the protest against the caste-based Brahmanism of the people who were fed up with the complex rituals of sacrifice and worship. Rather than fighting social change or the forces of nature, the Buddha sought salvation in moral perfection. He denied God and the Vedic religion but accepted the traditional ideas of samsara (the cycle of birth and death) and karma. He definitely said that new birth depends on good or bad deeds and not on caste and sacrifices.