Socrates سقراط

Socrates     سقراط

 

پیدائش::469 قبل مسیح


وفات:::399 قبل مسیح


ملک:یونان


اہم کام: اقوال ، تقریریں




وو

جہاں تک میں تعلق ہے، تو میں بس اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔“

سقراط


سقراط

افلاطون کے وسیلہ سے مغربی فلسفہ کو نہایت گہرائی میں متاثر کرنے والا فلسفی سقراط ایتھنز میں ایک سنگ تراش سوفرو نسکس اور ایک دایا Phaenarete کے ہاں پیدا ہوا۔ اُس نے ادب، موسیقی اور جمناسٹکس میں باقاعدہ ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں وہ سوفسطائیوں کے علم بدیع و معانی (Rhetoric) اور جدلیات سے واقف ہوا، ایونیائی فلسفیوں کے نگار اور تینر کے عمومی کلچر سے آشنائی پیدا کی۔ شروع میں سقراط نے اپنے باپ والا پیشہ اپنایا۔ روایت کے مطابق اس نے تین گریسز ( دیویوں) کا مجسمہ بنایا جو دوسری صدی عیسوی تک ایکروپولس کے مدخل پر ایستادہ رہا۔ سپارٹا کے ساتھ پیلو پونیشیائی جنگ میں وہ پیدل فوج میں شامل ہوا اور پوٹیڈیا (432 تا430 ق م)، ڈیلیم (424 ق م) اور ایفی پولس (422 ق م) کی لڑائیوں میں غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ سقراط زبانی بحث کو تحریر پر فوقیت دیتا تھا، لہذا اپنی بالغ زندگی کا زیادہ تر عرصہ ایتھنز کی گلیوں اور بازاروں میں بحث کے متمنی کسی بھی شخص کے ساتھ دلیل بازی کرتے ہوئے گزارا۔ بتایا جاتا ہے کہ سقراط ظاہری شکل و صورت میں غیر پرکشش اور کوتاہ قامت مگر نہایت جفاکش اور خود منضبط تھا۔ اُس نے زندگی سے بھر پور مزہ لیا اور اپنی حاضر جوابی اور دلچسپ حس مزاح ( جو طنز یا ر واقیت سے عاری تھی) کے باعث مقبولیت حاصل کر لی۔

سقراط ایتھنز کے قوانین کی اطاعت کرتا تھا، لیکن بالعموم سیاست سے دور رہا جس کی وجہ ایک الوہی فہمائش تھی۔ وہ یقین رکھتا تھا کہ دیوتاؤں نے اُسے فلسفہ کو مقصد حیات بنانے اور تعلیم دینے کے ذریعہ اپنے ملک کی بہترین انداز میں خدمت کرنے کا فریضہ سونپا ہے۔ لہذاوہ اہل ایتھنز کو تجزیہ نفس میں لگانے اور اُن کی روحانی نگہداشت میں مصروف ہو گیا۔ سقراط نے کہا اپنے آپ کو پہچانو ول ڈیورنٹ کی رائے میں اصل فلسفہ بھی شروع ہوتا ہے جب انسانی ذہن اپنی طرف متوجہ ہو جائے اور خود کو پر کھنے کی صلاحیت پیدا کر لے۔ کیا اپنی ذات کا تجزیہ کرنا اور نتیجتا کسی صریح یقین تک پہنچنا ممکن ہے؟ سقراط کا ایک مقولہ بہت مشہور اور مقبول ہے۔ ”میں ایک بات بخوبی جانتا ہوں ، اور وہ یہ ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ “ تو کیا تلاش ذات ، ساری زندگی فلسفیانہ بحثوں کی نذر کرنے کا انجام محض ”میں کچھ نہیں جانتا ہے؟ شاید سقراط کا یہ جملہ اس کی انکساری کا ثبوت ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو اُس میں اور بھی زیادہ دلچسپی پیدا ہوئی۔ سقراط کی سب سے بڑی کامیابی سننے

والوں کو سوچنے اور سلمہ قوانین اور دستوروں کے بارے میں سوال اُٹھانے اور ان پر شک کرنے کی تحریک دینا تھی۔ اگر آپ طے شدہ حالات پر سوال اُٹھانے اور نئی راہیں تلاش کرنے کے متمنی ہیں تو عمو مناسب سے پہلے اپنے قریب ترین لوگوں سے بیگانے ہو جاتے ہیں۔ آسمان کی وسعتوں میں سیاحت کرنے والا ذہن مسلسل حقیقی مادی حالات سے بے

بہرور ہتا ہے۔ سقراط کے ذریعہ معاش کے متعلق کسی کو معلوم نہ تھا ، وہ اپنے بچوں اور بیوی کی بھی کوئی پروانہ کرتا۔ اس کی بیوی سقراط نے کوئی کتاب نہ لکھی اور کوئی باقاعدہ فلسفیانہ مکتب قائم نہ کیا۔ اُس کی شخصیت اور انداز فکر کے بارے میں تمام قطعی معلومات کا ماخذ اس کے دو متاز ترین شاگردوں کی تحریریں ہیں۔ ایک شاگر د افلاطون تھا جس نے کہیں کہیں اپنے نظریات بھی سقراط کے کھاتے میں ڈال دیے۔ دوسرا شا گر دور مینوفون، ایک نثر نگار تھا جو اُستاد کے متعد عقائد کو مجھنے میں غالباً نا کام رہا۔ افلاطون نے سقراط کولاعلمی کے ایک ہجو یہ پردے کے پیچھے چھپا ہوا اور ذہنی ہوشیاری اور ودانائی کا حامل بیان کیا جس کے باعث وہ بڑی آسانی کے ساتھ دلائل پیش کرتا تھا۔

ژان تی پے کا نام تاریخ میں جھگڑالو اور لڑا کی عورت“ کا ہم معنی بن گیا۔

لنے میں سقراط کی حصہ داری بنیادی طور پراخلاقی نوعی کی تھی۔ انصاف محبت اور نیکی جیسے تصورات کی معروضی تنظیم پر یقین اور حاصل کردہ خود آگہی اُس کی تعلیمات کی اساس تھی۔ وہ یقین رکھتا تھا کہ تمام بدی لاعلمی اور جہالت کا نتیجہ ہے اور کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے برانہیں بنتا۔ چنانچہ نیکی علم ہے، اور راست بات کا علم رکھنے والا شخص درست رویہ ہی اختیار کرے گا۔ اُس کی منطق نے استدلال اور عمومی تعریفات کے لیے جستجو پر خصوصی زور دیا، جیسا کہ نوجوان ہم عصر اور شاگرد افلاطون اور افلاطون کے شاگر دارسطو کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ ان فلسفیوں کی تحریروں کے ذریعہ سقراط نے بعد کی مغربی فکر کے دھارے پر عمیق اثرات مرتب کیے۔

سقراط کی دوستی اور اثر میں آنے والا ایک مفکر اینٹی ستھینز تھا جس نے رواقی فلسفیانہ مکتب کی بنیاد رکھی۔ سقراط ارسطی پس Aristippus) کا بھی اُستاد تھا جو تجربے اور مسرت کے سائرنی (Cyrenaic) فلسفے کا بانی بنا۔ اپنی قورس کا زیادہ عالی شان فلسفه ارسطی پس کی فکر کی ہی ترقی یافتہ صورت تھا۔ یونانی فلسفی Epictetus ، رومن فلسفی سینی کا اکبر اور رومن

شہنشاہ مارکس اور پلیس جیسے رواقیوں نے سقراط کو اعلی تر زندگی کی تجسیم اور راہنما خیال کیا۔ سقراط کی موت نے اُس کی شخصیت کو اور بھی زیادہ پر کشش بنادیا۔ اگر چہ وہ ایک محب وطن اور حمیتی مذہبی یقین کا حامل شخص لیکن بہت سے ہم عصر اُسے شک کی نظر سے دیکھتے اور انتھنی ریاست و مروج مذہب کی جانب اُس کے رویے کو ناپسند کرتے تھے۔ 399 قبل مسیح میں اُس پر ریاست کے دیوتاؤں کو نظر انداز کرنے اور نئے معبود متعارف کروانے کا الزام عائد کیا گیا۔ ( یادر ہے کہ سقراط اکثر باطنی داخلی آواز کا ذکر کیا کرتا تھا ) ۔ اُسے نو جوان نسل کا اخلاق بگاڑنے اور انہیں جمہوریت کے اصولوں سے دور ہٹانے کا مورد الزام بھی ٹھہرایا گیا، اور اُسے غلط طور پر سوفسطائیوں کے ساتھ بھی جوڑا گیا۔ شاید اس کی وجہ تھی کہ مزاحیہ شاعر ار سوفینز نے اپنے کھیل " بادل میں اُس کا مذاق ایک دکان فکر کے ایسے مالک

کے طور پر اڑا دیا تھا جہاں نو جوانوں کو بدترین استدلال اعلیٰ ترین استدلال کی صورت میں پیش کرناسکھایا جاتا تھا۔ افلاطون کی Aplology" سے پتا چلتا ہے کہ سقراط نے مقدمے میں اپنا دفاع کرتے ہوئے کیا کہا۔ وہ بڑی بے با کی بہت کم لوگوں نے اس فیصلے کے حق میں ووٹ ڈالے تھے۔ ایتھنی قانونی دستور کے مطابق سقراط نے اپنی موت کے خلاف طنزیہ جوابی

دعوی دائر کیا اور تجویز دی کہ اُسے بس تھوڑا سا جرمانہ ہی کر دیا جائے کیونکہ وہ ایک فلسفیانہ مشن کے حامل انسان کے طور پر ریاست کے لیے قابل قدر ہے۔ منصف اس تجویز پر اتنے سیخ پا ہوئے کہ سقراط کی سزائے موت کے حق میں ووٹوں کی تعداد کافی بڑھ گئی۔

سقراط کے دوستوں نے اُسے جیل سے بھگانے کا منصوبہ بنایا لیکن وہ قانون کی اطاعت کرنا اور اپنے نصب العین کی خاطر جان دینا زیادہ بہتر سمجھتا تھا۔ اس نے زندگی کا آخری دن دوستوں اور مداحوں کے درمیان گزارا اور شام کے وقت بڑے سکون سے زہر کا پیالہ پی لیا ( جیسا کہ اُس دور میں سزائے موت دینے کا دستور تھا)۔ افلاطون نے سقراط کے مقدمے

اور موت کا حال Crito Apology‘ اور Phaedo‘ میں بیان کیا ہے۔