برہسپتی (Brihaspati)
پیدائش: انداز اساتویں صدی قبل مسیح
ملک: ہندوستان
اہم کام '' سوتر"
''نہ کوئی سورگ ہے، نہ نجات ، نہ ہی کسی اور دنیا میں کوئی آتما ہے۔"ہسپتی
یقین کیا جاتا ہے کہ برہمسپتی چارواک لو کایت مکتبہ کا بانی اور اس کے سوتروں کا مصنف تھا۔ چارواک لوکایت مادیت پسند فلسفی تھے۔ تاہم، بر سیتی کی مادیت پسندی کو صرف اس مکتبہ تک محدود کر دینا ایک سنگین غلطی ہوگی، کیونکہ اس طرح ہندوستانی مادیت پسندی کی وسعت واہمیت گھٹ جائے گی۔ ہندوستانی فلسفہ کے تقریبا سبھی نظاموں یا مکاتب میں مادیت پندانه در جهان خلقی حیثیت رکھتا ہے، بشمول جدید دور کے معروضی عینیت پسند ویدانت مکتبہ فکر کے۔ یہ بر ہستی ہی تھا جس نے قدیم ہندوستانی مادیت پسندی کو ممتاز بنایا۔ اُس کی زندگی کے بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ اُس کی فکر چارواک لوکا بیت مکتبہ کے سوتروں کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے، لہذا ہم یہاں اسی مکتبہ کے نظریات پر بات کریں گے۔ (البتہ یہ امر یا درکھنا چاہیے کہ کچھ متقین کے خیال میں چارواک مفکرین کا ایک گروپ تھا، کچھ کی نظر میں یہ ان کی تحریروں کے لیے مخصوص نام تھا۔) چارواک نے خدا کی موجودگی کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے چار عنار کو جو ہر تسلیم کیا بھٹی، پانی، آگ اور ہوا۔ انہی عناصر کے امتزاجات نے تمام چیزیں اور مادی و روحانی مظاہر فطرت پیدا کیے۔ روح بھی شعور کا حامل ایک جسم ہے، روح کا جسم سے باہر کوئی وجود نہیں۔ شعور غیر شعوری عناصر سے مخصوص حالات میں جنم لیتا ہے۔ شعور محض مادی عناصر کو ملانے کے مخصوص عمل کا نتیجہ ہے۔ انسان کی موت سے اس کا شعور اور روح دونوں فنا ہو جاتے ہیں۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں اجیت کیش کمبلی نامی چارواک نے کہا کہ دانا اور بے وقوف دونوں ہی اپنے جسم سمیت فنا ہو جاتے ہیں، اور موت کے بعد اُن کا کوئی وجود نہیں رہتا۔ چارواک نے مذہبی تو ہمات کو مسترد کیا جولوگوں کو لاعلم اور استحصال کا شکار رکھتی ہیں، اور حس ادراک کے نتیجے کے طور پر ان کے نظریہ بصیرت کی مخالفت کی۔ یہ مجہول حساسیت کا نکتہ نظر یقیناً کچھ کمزور پہلو رکھتا تھا۔ حسیات اور ادراکات کو علم کا واحد ماخذ تسلیم کرتے ہوئے چارواک یہ بھول گئے کہ ادراک میں حیاتی اور استدلالی عناصر کا ایک جدلیاتی اتحاد پایا جاتا ہے۔ انہوں نے انسان کی اورا کی سرگرمی کو مجرد سوچ کی صورت میں غیر درست یا بہر صورت غیر معتبر سمجھا۔ چارواک نے کہا کہ ذہن ( یعنی مجرد سوچ ) کا حسیات اور ادراکات کے بغیر کوئی وجود نہیں۔ قضیے اور تمثیلات صرف تبھی ممکن ہیں جب ان کی بنیاد حیاتی ذرائع سے حاصل کردہ ڈیٹا پر ہو۔ نیز، مجرد استدلالی سوچ (یعنی ذہن ) حسیاتی ادراک کی فراہم کردہ معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتی۔ یہ الفاظ دیگر ، وہ مظاہر کی تفہیم سے جو ہر کی تفہیم کی جانب عبور کی جدلیات کو شناخت کرنے میں ناکام رہے۔
تاہم، یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ چارواکوں کا اصل مقصد برہمن مت کی آئیڈیا لوجی کے زور دار حملے سے نوم تھا۔ مادیت پسندی کے مخالفین ( زیادہ تر برہمن پر وہت) نہ صرف مادیت پسند فلسفیوں کی سرکوبی کرتے ، بلکہ اُن کی تحریروںا آتش بھی کردیتے ھے اس لیے اراک کا ایک اداری ادا کریں تلف ہوگئی۔اب ہمیں کرار پسندوں کے نظریات صرف مخالفین کی تحریروں میں ہی ملتے ہیں۔
چارواک مادیت پسندی عینیت پسندانہ اور مذہبی نظریات کے خلاف براہ راست تنقید سے متصف ہے۔ ان کا مقصد کوئی باقاعدہ نظام فکر مرتب کرنے کے بجائے محض برہمنی آئیڈیا لوجی کی تردید کرناہی نظر آتا ہے۔ چارواک لوکایت کے نظریات کو مندرجہ ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
تمام ہستی کی بنیاد چار مادی عناصر (مہا بھوت ) پر ہے: آگ ہٹی، پانی اور ہوا۔ یہ عناصر بے ساختہ انداز میں مستعد ہیں، اور ان کے اندر خلقی طور پر اپنی ایک قوت (سو بھاو) پائی جاتی ہے۔
صرف یہ دنیا‘ (لوک) موجود ہے، کوئی پرالوک یا حیات بعد الموت نہیں ہوگی، یعنی انسان کی موت کے بعد اس کی زندگی نہ تو وہاں برہمن۔ آتما دنیا میں جاری رہے گی، اور نہ ہی ” یہاں زمین پر دوبارہ قائم ہوگی۔ چارواک
کہتے ہیں:
جب تک زندہ ہو، خوشی خوشی زندگی گزارو؛
موت کی متلاشی آنکھ سے کسی کو بھی مفر نہیں ؟
جب ایک مرتبہ تمہارا یہ بدن جلا دیا جائے تو یہ دوبارہ واپس کیسے آسکتا ہے؟
انہوں نے اس مذہبی قضیے پر تنقید کی کہ شعور لافانی روح کی ملکیت ہے اور اصرار کیا کہ انسان کے ساتھ ہی اُس کا شعور بھی فنا ہو جاتا ہے، جبکہ خود انسان چار بنیادی عناصر میں منتشر ہو جاتا ہے۔ ان کے مطابق انسان چار عناصر سے مل کرنا ہے اور موت آنے پر یہ چار عناصر اپنے اپنے ماخذ میں لوٹ جاتے ہیں۔ کوئی مافوق الفطرت (الوہی) قوتیں موجود نہیں۔ خدا غریبوں کو دھوکا دینے کے لیے امیروں کا وضع کردہ غریب ہے۔ چارواک کا خیال تھا کہ براہمن مت بھی دیگر مذاہب کی طرح نقصان دہ اور ناممکن الثبوت ہے، کیونکہ یہ غریبوں کی توجہ اور طاقت کو خیالی دیوتاؤں کی عبادت کرنے ، نامعلوم قوتوں کو نذرانے چڑھانے اور فضول وعظ سنے وغیرہ کی جانب لگا دیتا ہے۔ مذہبی تحریریں مادی مقاصد رکھنے والے افراد کے مخصوص گروہ کی تخیل بازیوں پرمبنی
کوئی روح موجود نہیں۔ یعنی مذہبی مسالک اور فلسفیوں کی بیان کردہ روح۔ یہ سوچ کی اہمیت کا حامل مادہ ہے اور اس کا مادے سے علیحدہ کوئی وجود نہیں۔ قانون کرم ( یعنی اچھے بُرے اعمال کی جزا وسزا) مذہب کے پیروکاروں کی اختراع ہے جسے عینیت پسند فلسفیوں
نے بھی استعمال کیا۔ اس دنیا میں برائی کا ماخذ معاشرے میں موجود ظلم و نا انصافی میں تلاش کرنا چاہیے۔ فطرت کے علم کا واحد منبع حیاتی ادراک ہے۔ صرف براہِ راست ادراک ( حواس خمسہ کے ذریعے ) ہی انسان کو حقیقی علم ( پر تیکشا ) دیتا ہے۔ صرف اسی چیز کا وجود ہی جو براہِ راست طور پر قابل ادراک ہو۔ نا قابل ادراک چیز وجود نہیں رکھتی۔ نا قابل ادراک سے چارواک کی مراد خدا، روح، آسمانی بادشاہت وغیرہ جیسے مذہبی ” جواہر ہیں۔ چارواکوں کے مطابق حیاتی اور اک دو قسم کا ہو سکتا ہے۔ خارجی اور داخلی ۔ داخلی اور اکات استدلال (منوں) کی فعالیت سے پیدا ہوتے ہیں۔ خارجی ادراکات پانچ حیاتی اعضا کی فعالیت کے ساتھ مربوط ہیں۔ چنانچہ خود علم کی بھی دو اقسام یا صورتیں ہیں۔ پہلی قسم کا علم حیاتی اعضا اور خارجی دنیا کی اشیا کے درمیان رابطے کا نتیجہ ہے۔ دوسری قسم کا علم حسیاتی ڈیٹا کی بنیاد پر ذہنی سرگرمیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر چہ وسطی دور کے اختتام تک چارواک مکتبہ فکر غائب ہو چکا تھا لیکن اس کے نظریات دیگر فلسفیوں اور فیض یاب نظر آتی ہے۔ مکاتب میں سرایت کر گئے ۔سا نکھیہ نظام فکر کی مادیت پسندی کافی حد تک بر ہسپتی اور دیگر چار واک مفکرین سےفیض یاب نظر آتی ہے۔