ہیرا کلیتس (Hera-Cletus) |
ہیرا کلیتس (Hera-Cletus)
پیدائش:540 قبل مسیح ( اندازاً)
وفات: 480 قبل مسیح ( اندازا)
ملک:یونان
اہم کام : معدوم تحریریں
"صرف تغیر ہی اہل ہے۔“
ہیرا کلیتس
مادیت پسند اور جدلیاتی طریقہ کار اپنانے والا یونانی فلسفی ہیرا کلیتس ایشیائے کو چک میں ایک قدیم یونانی شہر( ایفی سس) میں پیدا ہوئے جواس وقت ترکی میں ہے ۔ یہ جگہ فلسفے کی جائے پیدائش ملیتس سے زیادہ دور نہ تھی۔ تاہم ہیرا کلیتس کی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔ تمام قدیم سوانحات میں اس کے اقوال کی بنیاد پر ہی کچھ اندازے لگائے گئے ۔ اگر چہ افلاطون کا خیال تھا کہ اس نے پار مینائیڈ زسے پہلے لکھا لیکن قرین قیاس ہے کہ اس نے پر مینائیڈز کے بعد لکھا ہو۔ کیونکہ وہ ان تمام اہم مفکرین اور اہل قلم پر فرد فردا تنقید کرتا ہے جن کے ساتھ وہ اختلاف رائے رکھتا ہے۔ اس نے کہیں ھی پار مینائیڈ کا ذکر نہیں کیا۔ دوسری طرف پار مینائیڈز نے اپنی نظم میں ہیرا کلیتس کے اقوال کی ہی بازگشت پیش کی۔ ہیرا کلیتس نے اسطورہ نگاروں ہومر و بسیاڈ کے علاوہ فلسفیوں میں فیثا غورث اورژینوفینز جبکہ مورخ ہیکاٹیئس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ سب افراد چھٹی صدی قبل مسیح یا اس سے بھی پہلے کے ہیں۔ لہذا ہیرا کلیتس کا دور چھٹی صدی قبل مسح کےآخر کا بنتا ہے۔ اگر چہ اس نے اپنے سیاسی خیالات کھل کر بیان نہیں کیے لیکن شاید وہ عوام کے لیے ارسٹوکر ٹیک جذ بہ تحقیر کا حامل اور چند دانا افراد کی حکومت کا حامی نظر آتا ہے۔
ہیرا کلیتس نے اپنے پیش روؤں اور ہم عصروں پر تنقید کی کہ وہ تجربے میں اتحاد کو شناخت کرنے میں ناکام رہے تھے۔ دہ ایک ابدی لوگوس (Word) کے اعلان کا دعویدار ہے جس کے مطابق تمام چیزیں کچھ اعتبار سے ایک ہی ہیں۔ اس کے خیال میں انسانوں کی ایک وسیع اکثریت تفہیم سے عاری ہے۔ زیادہ تر لوگ خواب کے عالم میں زندگی کا سفر طے کرتے ہیں، اور اپنے اردگرد کے حالات کا ادراک نہیں رکھتے ۔ تاہم اقوال اور افعال کا تجربہ ان کے معنی سمجھنے کے مشتاق لوگوں کے ذہن کو تابندہ کر سکتا ہے۔ ایک طرف وہ حسی تجربے کی تائید کرتا ہے: ”میں ان چیزوں کو ترجیح دیتا ہوں جو دکھائی اور سنائی دیتی اور تجربے میں آتی ہیں۔ دوسری طرف وہ یہ کہتا ہے : " انسان کی آنکھیں اور کان غیر معتبر گواہ ہیں، اگر ان میں بربری روحیں موجود ہیں۔ بربری سے مراد ایسا شخص ہے جو یونانی زبان نہیں بول سکا تھا۔ لہذا حسی تجر بہ تفہیم کے لیے لازم نظر آتا ہے لیکن اگر ہم درست زبان نہیں جانتے تو حسیات کی فراہم کردہ معلومات کی تفسیر نہیں کر سکتے۔ ہیرا کلیتس علم میں تجربے اور استدلال کے کرداروں کا کوئی مفصل اور باقاعدہ بیان پیش نہیں کرتا۔ لیکن ہم اس کے انداز اظہار سے کچھ اندازہ کر سکتے ہیں۔ مذہبی پیغام بروں کا طرز عمل بیان کرتے ہوئے ہیرا کلیتس کہتا ہے : ”خدا جس کا دار الاستخارہ ڈیلفی میں ہے، وہ کچھ آشکار کرتا اور ناہی کچھ چھپاتا ہے لیکن وہ اشارے ضرور دیتا ہے۔ اسی طرح وہ خود بھی کچھ آشکارکرنے یا چھپانے کے بجائے رقیق تاثرات پیدا کرتا ہے جن میں مضمر متعدد پیغامات کی تفسیر کی جاسکتی ہے۔
افلاطون اور ارسطو دونوں کے مطابق ہیرا کلیتس کے نظریات منطقی بے آہنگی پرمنتج ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس نے کہا۔
(1) - ہر چیز مسلسل تبدیل ہورہی ہے۔ اور
(2) - متضاد چیزیں متماثل ہیں، چنانچہ
(3) - ہر چیز ایک جیسی ہے بھی اور نہیں بھی۔
یہ الفاظ دیگر ہمہ گیر بہاؤ اور اضداد کی مشابہت کا نظریہ عدم تضاد کے اصول کی تردید ہے۔ افلاطون کہتا ہے : " مجھے یقین ہے کہ ہیرا کلیتس کے خیال میں تمام چیزیں فانی میں اور کچھ بھی پائیدار نہیں اور ہستیوں کا موازنہ دریا کے بہاؤ کےساتھ کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ آپ ایک ہی دریا میں دو مرتبہ پاؤں نہیں رکھ سکتے ۔ در حقیقت ہیرا کلیتس کا ئناتی بہاؤ کی بات نہیں کرتا لیکن عناصر کے ایک قانون نما بہاؤ کو مانتا ہے۔ اور وہ متضادات کی مشابہت کی بجائے متضادات کی ہیئتی برابری کی بات کرتا ہے۔ ہیرا کلیتس کی تھیوری کو اس کے ایو نیائی پیش روؤں کے فلسفہ کے ردعمل کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ ملیتس شہر سے تعلق رکھنے والے فلسفی (تھیلس، انا کی ماندر اور اناکسی منیز ) یقین رکھتے تھے کہ کوئی اور یجنل (اصل) میٹریل تمام دیگر چیزوں میں تبدیل ہوگیا۔ ہمیں معلوم دنیا اصل جو ہر سے پیدا ہونے والے مختلف جواہر کا منظم اظہار ہے ۔ اہل ملیتس کی نظر میں دنیا اور اس کے مظاہر کی وضاحت کا مطلب محض یہ دکھانا تھا کہ ہر چیز نے اصل جوہر میں سے کیسے ظہور پایا ۔تھیلس نے پانی اور اناکسی مینیز نے ہوا کو اصل جو ہر قرار دیا۔ ہیرا کلیتس دنیا کو ابدی آگ کے حوالے سے بیان کرتا ہے۔لیکن آگ کو تمام چیزوں کا ماخذ بتانا کافی عجیب ہے کیونکہ یہ نہایت غیر مستحکم اور متغیر ہے۔ در حقیقت یہ تبدیلی اور عمل کی علامت ہے۔ ہم آگ کو کسوٹی بنا کر تمام چیزوں کو ناپ سکتے ہیں۔ وہ کہتا ہے : " تمام چیزیں آگ کا بدل اور آگ تمام چیزوں کا بدل ہے، جیسے تمام چیزیں سونے کا اور سونا تمام چیزوں کا بدل ہے۔ تمام چیزوں اور سونے کے درمیان ایک برابری تو موجود ہے،
لیکن تمام چیزیں سونے جیسی نہیں۔ چنانچہ آگ دیگر جواہر کے لیے ایک معیاری قدر تو ہے لیکن یہ ان جیسی نہیں۔ ہیرا کلیتس کی مابعد الطبیعاتی خیال آرائیوں کی بنیاد ایک طبعی تھیوری پر ہے۔ وہ ایک ہی جملے میں اپنی تکو ینیات کے اصول بیان کر دیتا ہے یہ نظام دنیا کسی دیوتا اور نہ ہی کسی انسان نے تخلیق کیا لیکن یہ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا ۔" یہاں اس نے پہلی مرتبہ لفظ Kosmos استعمال کیا جس سے نظام دنیا مراد ہے۔ اس بارے میں کچھ اختلاف رائے پایا جاتا ہے کہ آیا ہیرا کلیتس ایک فطری فلسفی ہے یا انسانی حالت پر سوچ بچار
کرنے والی فلسفی ۔ در حقیقت وہ فطرت اور انسانی حالت کے نظریات کو باہم مربوط سمجھتا ہے۔ ہیرا کلیتس نے دیگر ایو نیائی فلسفیوں کی نسبت زیادہ گہرائی میں جا کر فلسفہ فطرت کا مطالعہ کیا۔ اس نے پہلی بار فلسفہ میں انسانی اقدار کومرکز بحث بنایا۔ اس کا تشبیہاتی انداز اورعمومی سچائیوں پر تحقیق کرنے کا طریقہ بے مثال ہے۔ افلاطون نے حسیاتی دنیا کو ہیرا کلیتس کے پیش کردہ نظریہ بہاؤ کی روشنی میں ہی دیکھا۔ رواقیوں(Stoics) نے ہیرا کلیتس کے طبعی اصولوں کو اپنے نظریات کی بنیاد بنایا۔
Hera-Cletus
Born: 540 BC (estimated)
Died: 480 BC (estimated)
Country: Greece
Important Works: Extinct Inscriptions
"Only variation is eligible."
Hera Cletus
The materialist and dialectical Greek philosopher Herakles was born in Asia in an ancient Greek city (Ephesus) which is now in Turkey. This place was not far from Miletus, the birthplace of philosophy. However, Hera does not know anything about the life of Cletus. In all the ancient biographies some assumptions were made on the basis of his sayings. Although Plato believed that he wrote Par Menides before, but it is believed that he wrote Par Menides after. Because he criticizes all the important thinkers and writers individually with whom he disagrees. Nowhere does he mention the Paramenoid. On the other hand, Parmenides echoed the words of Heracletus in his poem. In addition to the myth writers Homer and Busiads, Hera Cletus criticized the philosophers Phaethagoras and Xenophanes and the historian Hecataeus. All these people belong to the 6th century BC or even earlier Therefore, the era of Herakleitas falls to the end of the 6th century BC. Although he has not expressed his political views openly, he may appear to have contempt for the public and favor the rule of a few wise men.
Heracletus criticized his predecessors and contemporaries for failing to recognize unity in experience. Deh claims the declaration of an eternal Logos (Word) according to which all things are in some sense the same. He believes that a vast majority of human beings lack understanding. Most people travel through life in a dream, and are not aware of their surroundings. However, the experience of sayings and actions can bind the minds of people eager to understand their meaning. On the one hand, he supports sensory experience: “I prefer things that are seen and heard and experienced. On the other hand, he says: Human eyes and ears are unreliable witnesses if barbaric spirits are present in them. A barbarian refers to a person who could not speak the Greek language. So sensory experience seems necessary for understanding, but if we do not know the correct language, we cannot interpret the information provided by the senses. The Heraklion does not offer a detailed and systematic account of the roles of experience and reasoning in knowledge. But we can infer something from his manner of expression. Describing the behavior of the religious message, Heraclitus says: "The God whose Dar al-Istikhara is at Delphi, reveals something and does not hide anything, but he certainly gives hints." Similarly, instead of revealing or concealing something, he himself creates subtle expressions in which multiple messages can be interpreted. "God, whose Dar al-Istikhara is at Delphi, reveals something and does not hide something, but he certainly gives hints. Similarly, instead of revealing or concealing something, he himself creates subtle expressions in which multiple messages can be interpreted. "God, whose Dar al-Istikhara is at Delphi, reveals something and does not hide something, but he certainly gives hints. Similarly, instead of revealing or concealing something, he himself creates subtle expressions in which multiple messages can be interpreted. "God, whose Dar al-Istikhara is at Delphi, reveals something and does not hide something, but he certainly gives hints. Similarly, instead of revealing or concealing something, he himself creates subtle expressions in which multiple messages can be interpreted. "God, whose Dar al-Istikhara is at Delphi, reveals something and does not hide something, but he certainly gives hints. Similarly, instead of revealing or concealing something, he himself creates subtle expressions in which multiple messages can be interpreted.
According to both Plato and Aristotle, Heraclitus' ideas lead to logical incoherence. Because he said so.
(1) - Everything is constantly changing. And
(2) - Contraries are similar, therefore
(3) - Everything is both the same and not the same.
These words contradict the principle of non-contradiction, the other universal flow, and the theory of similitude of opposites. Plato says: I believe that Heracletus thinks that all things are mortal and nothing is permanent, and comparing beings to the flow of a river, he says that you cannot step in the same river twice. In fact, Heraclitus' doctrine does not speak of flow but of a law-like flow of elements. And he speaks of the structural equality of opposites rather than the similarity of opposites. Heraclitus' theory can be taken as a response to the philosophy of his Eonian predecessors. Philosophers from the city of Miletus (Thales, Temple of Anna, and Anaximenes) believed that some other genial (original) material transformed into all other things. The world as we know it is the organized expression of the various gems born from each. According to the Meletians, the explanation of the world and its phenomena meant simply showing how everything emerged from the original essence. Thales described water and Anaximenes air. The original declared each. Herakles describes the world in terms of eternal fire. But it is quite strange to say that fire is the source of all things because it is so unstable and changeable. In fact, it is a sign of change and action. We can measure all things by using fire as a criterion. He says: "All things are the substitute of fire and fire is the substitute of all things, just as all things are gold and gold is the substitute of all things. There is equality between all things and gold. All things are the substitute for fire and fire is the substitute for all things, just as all things are for gold and gold is the substitute for all things. There is equality between all things and gold. All things are the substitute for fire and fire is the substitute for all things, just as all things are for gold and gold is the substitute for all things. There is equality between all things and gold.
But not all things are gold. So fire is a standard value for other gems but it is not like them. Herakles' metaphysical ideas are based on a physical theory. He states the principles of his trinitarianism in a single sentence: "This system of worlds was not created by any god or man, but it always was and always will be." The world is meant. There is some disagreement as to whether Heraclitus is a natural philosopher or a thinker on the human condition.
Philosopher doing In fact, he sees the views of nature and the human condition as interrelated. Heraclitus studied the philosophy of nature in greater depth than the other Aeolian philosophers. For the first time, he made human values a central discussion in philosophy. His allegorical style and way of researching general truths is unparalleled. Plato saw the sensory world in the light of the theory of flux presented by Heraclitus. The Stoics based their theories on the physical principles of Heraclitus.