(زرتشت) Zoroaster
پیدائش : 628 قبل مسیح (انداز )
وفات: 551 قبل مسیح (اندازا)
ملک:فارس
اہم کام: بھیجن اور نظمیں
دوسروں کی بھلائی کرنا فرض نہیں بلکہ مسرت ہے، کیونکہ یہ ہماری اپنی صحت اور
خوشی کو بڑھاتی ہے ۔“
زرتشت
زرتشت
قدیم فارسی مذہبی مصلح زرتشت کو ایک پیغمبر اور زرتشت مت کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے دور کے بارے میں آرا میں بے پناہ تفاوت ہے۔ انکار ٹا انسائیکلو پیڈیا میں کچھ تحقین کی یقینی رائے درج ہے کہ وہ 1750 اور 1500 قبل مسیح یا 1400 اور 1200 قبل مسیح کے درمیان گزرا ہے۔ البتہ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا نے فارسی روایت کو بنیاد بنایا جس کے مطابق
اُس کی تاریخ پیدائش اور وفات مندرجہ بالا ہی ہے۔ زرتشت کو مذاہب عالم کی تاریخ میں دو وجوہ کی بنا پر توجہ حاصل رہی۔ ایک طرف وہ ایک داستانی شخصیت بن گیا جس کا تعلق مشرق قریب اور ہیلینیائی دور (300 ق م تا 308) کی میڈی ٹرینین دنیا کی سحری رسوم اور عقیدے کے ساتھ بہت گہرا تھا۔ دوسری طرف اُس کے ہاں ملنے والے خدا کے وحدانی تصور نے مذہب کے جدید مورخین کی توجہ حاصل کی جنہوں نے زرتشت کی تعلیمات اور یہودیت و عیسائیت کے درمیان روابط کا ذکر کیا۔ اگر چہ فاری یا زرتشتی فکر کے یونانی، رومن و یہودی فکر پر عمیق اثرات کے دعوؤں کو مسترد کیا جاسکتا ہے، لیکن زرتشت کے مذہبی نظریات کے ہمہ گیر اثر کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے۔ زرتشت مت کے طالب علم کو اس کے بانی کے حوالے سے متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ زرتشت مت کا کون سا حصہ زرتشت کے قبائلی مذہب سے ماخوذ ہے اور کون سا حصہ اس کے خیالات اور تخلیقی مذہبی جنینیس کے نتیجے میں نیا پیدا ہوا۔ ایک اور سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ بعد میں ساسانی دور (224 تا 651ء) کا زرتشتی مذہب مزدیت کس حد تک زرتشت کی اصل تعلیمات کی عکاسی کرتا ہے۔ تیسرے سوال کا ذکر کر دینا بھی برمحل ہوگا کہ اوستا، گا تھا ئیں اور فارسی پہلوی کتب کے علاوہ مختلف یونانی مصنفین کی کتب زرتشتی خیالات کی کس حد تک نمائندگی کرتی ہیں۔ زرتشت کی زندگی کے متعلق تفصیلات محض قیاسی ہیں۔ زرتشتی روایت کے مطابق وہ ' سکندراعظم سے 258 سال قبل گزرا ہے۔ سکندر نے ایمیوں کا دارالحکومت پرسی پولس 330 قبل مسیح میں فتح کیا تھا۔ اسی دور کو بنیاد مان لیا جائے تو زرتشت نے 588 قبل مسیح میں وشتاسب ( جو بحیرہ ارال کے جنوبی علاقے کو راسمیا کا بادشاہ تھا) کا مذہب تبدیل کیا۔ روایت کے مطابق اس موقع پر زرتشت کی عمر 40 سال تھی، لہذا اس کی تاریخ پیدائش 628 قبل مسیح بنتی ہے۔ اس کا تعلق شہواروں کے ایک گھرانے سے تھا اور وہ تہران کی نواحی بستی رے میں پیدا ہوا۔ اُس کا آبائی علاقہ ابھی تک شہر نہیں بنا تھا اور وہاں کی معیشت انحصار مویشی پالنے پر تھا۔ زرتشت نے گاہے بگا ہے حملے کرتے رہنے والے خانہ بدوشوں کو جھوٹ کے پیروکار کیا۔
ذرائع کے مطابق زرتشت ایک پر وہت تھا۔ اہورا مزدا یعنی دانا آقا کی جانب سے الہام یافتہ ہونے کے بعد زرتشت نے خود کو الوہی صداقت کا پیغام بر خیال کرنا شروع کر دیا۔ علاقے کے سول مذہبی حکام نے بدیہی طور پر اُس کی مخالفت کی۔ الہام کی صداقت پر پورا یقین ہوتے ہوئے بھی اس نے قدیم کثرت پرست فاری مذہب پر ایمان قائم رکھا۔ البتہ اس نے اہورا مزدا ولا فانیت اور مسرت کا وعدہ کرنے والی انصاف کا بادشاہت کے مرکز میں رکھا۔ اگر چہ زرتشت نے مروج سماجی و اقتصادی اقدار کی بنیاد پر قدیم فاری مذہب میں اصلاح کرنا چاہی لیکن اس کے اولین مخالف وہ لوگ تھے جنہیں وہ جھوٹ کے
پیروکار کہتا ہے۔
اعلی ترین اور پرستش کے قابل واحد د یو نا اہورا مزدا زرتشت کی تعلیمات کا محور ہے۔ گا تھاؤں کے مطابق وہ آسمان اور زمین یعنی مادی اور روحانی دنیا کا خالق ہے۔ وہ نور اور ظلمت کا ماخذ مختار کل قانون دہندہ اور فطرت کا جو ہر ہونے کے علاوہ اخلاقی نظام کا موجد اور ساری دنیا کا منصف بھی ہے۔ ہندوستانی ویدوں میں ملنے والی کثرت پرستی زرتشت کے ہاں بالکل نہیں ملتی۔ مثلا گا تھاؤں میں اہورا مزدا کے ساتھ حکومت میں شریک کسی دیوی کا ذکر نہیں۔ اہورا مزدا کے گرد چھیا سات ہستیوں کا حلقہ ہے جنہیں اوستا میں امیش سپینا ( فیض رساں لافانی) کہا گیا۔ ساری گا تھاؤں میں امیش سپینا کے نام بار بار آتے ہیں اور غالباً انہیں زرتشت کی فکر اور تصور دیوتا کا نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
گا تھاؤں کے الفاظ میں اہورا مزدا سپینا ( روح مقدس)، آشا دہشتا (انصاف، صداقت)، ووهومناه (راست
سوچ) اور ارمیتی ( بھگتی) کا باپ ہے۔ اس گروپ کی دیگر تین ہستیوں کو اہورا مزدا کی خوبیوں کی تجسیم بتایا جاتا ہے۔کھشتر
اویریه ( قابل خواہش سلطنت ) ، ہور وانت (ہمہ گیریت) اور امیرے تت ( لافانیت ) ۔ تاہم، یہ امکان مسترد نہیں ہوتا کہ یہ سب اہورا مزدا کی تخلیق ہے۔ ان ہستیوں میں مجسم اچھے وصف اہورا مزدا کے پیروکاروں کے لیے بھی قابل تحصیل ہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ انسان اور دیوتا دونوں کے لیے ایک ہی جیسے اخلاقی اصول ہیں۔ زرتشت مت کا ایک نہایت اہم
معادیاتی (Eschatological) پہلو کھشتر ا کے تصور میں واضح ہے جو کہ مستقبل کی قابل خواہش بادشاہت ہے۔ زرتشت کی تعلیمات کی وحدانیت میں ایک ثنائیت (Dualism) کی وجہ سے کچھ گڑ بڑ پیدا ہوتی ہے: اہورا مزدا کا ایک مخالف اہرمن بھی ہے جو برائی یا شر کا نمائندہ ہے اور اس کے پیروکار بھی بد ہیں۔ اس اخلاقی ثنائیت کی جڑیں زرتشتی حکمو مینیات(Cosmology) میں ہیں۔ اس نے تعلیم دی کہ ابتدا میں دور وحوں کا ملاپ ہوا جو زندگی یا غیر زندگی کو اپنانے میں آزاد تھیں۔ اس حق اختیار نے ایک خیر اور شر کے اصول کو جنم دیا۔ حق وانصاف کی سلطنت کا تعلق اول الذکر اور جھوٹ کی سلطنت کا تعلق موخر الذکر سے ہے۔ تاہم، وحدانیت کا تصور کو بنیاتی اور اخلاقی ثنائیت پر غالب ہے کیونکہ اہورا مزدا دونوں روحوں (خیر اور شر ) کا باپ ہے۔ اہورا مزدا انجام کارامیش سپیتا کے ساتھ مل کر روح شر کا خاتمہ کر دے گا۔ کائناتی اور اخلاقی دوئی کے خاتمے پر دلالت کرنے والا یہ پیغام زرتشت کی مرکزی مذہبی اصلاح معلوم ہوتا ہے۔ اس کا پیش کردہ وحدانیت پرستانہ حل پرانی کٹر نائیت سے ہی رجوع کرتا ہے۔ تاہم، ایک بعد کے دور میں ثنائی اصول زیادہ شدید صورت میں دوبارہ ظاہر ہوا۔ اس مقصد کی خاطر اہورا مزدا کی حیثیت بھی اس کے مخالف اہرمن کے برابر کر دی گئی۔ ابتدائے آفرینش میں دنیا خیر اور شرکی سلطنت کے در میان بٹی ہوئی تھی۔ ہر انسان کو ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرتا ہے۔ اہورا مزدا اور اس کی حکومت یا اہرمن۔ یہی اصول روحانی ہستیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے جو اپنی اختیار کردہ راہوں کے مطابق ہی اچھی یا بری ہیں۔ انسان کی آزادی اختیار کا مطلب ہے کہ وہ اپنے مقدر کا خود ذمہ دار ہے۔ نیک انسان اپنے اچھے اعمال کے ذریعہ ابدی انعام یعنی لافانیت اور وصال حاصل کرتا ہے۔ ججھوٹ کی راہ اختیار کرنے والے کو اپنے ضمیر کے علاوہ اہورا مزدا سے بھی سزا ملتی ہے۔ یہ تصور کافی حد تک عیسائیوں کے تصویر دوزخ سے ملتا ہے۔ اوستا کے مطابق ایک مرتبہ دونوں میں سے ایک راہ منتخب کر لی جائے تو واپسی کی کوئی صورت نہیں۔ لہذا د نیاد و مخالف دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے جن کے ارکان دو متحارب سلطنتیں ہیں۔ اہورا مزدا کی طرف بستیاں بسانے والے گلہ بان یا کسان ہیں جو ایک مخصوص سماجی نظام میں رہتے اور اپنے مویشیوں کا خیال رکھتے ہیں۔ جھوٹ کے پیروکار چور صفت خانہ بدوش ہیں۔ منظم زراعت اور گلہ بانی کے دشمن۔ گا تھاؤں میں سے متعدد زرتشت نے لکھی تھیں۔ ان میں جابجا تصور معادیات ملتا ہے۔ موت کے بعد انسان کے لیے منتظر مقدر کا حوالہ تقریبا ہر صفحے پر دیا گیا ہے۔ زرتشت کے مطابق دنیا میں ہماری حالت ہی موت کے بعد کی حالت کا تعین کرتی ہے۔ اگلی زندگی میں اہورا مزدا اچھے فعل، اچھی گفتار اور اچھی سوچ کو انعام دے گا اور بُرے فعل، بری گفتار اور بری سوچ کو سزا سے دو چار کرے گا ۔ مرنے کے بعد ہر انسان کی روح " صلے کے پل سے گزرتی ہے جس کی جانب ہر کوئی خوف اور پریشانی کے ساتھ دیکھتا ہے۔ اہورا مزدا کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے پر نیک روحیں ابدی مسرت اور نور کی سلطنت میں داخل ہوتی ہیں جبکہ بری روحوں کو خوف اور ظلمت کے خطوں میں پھینکا جاتا ہے۔ تاہم زرتشت نے دکھائی دینے والی دنیا کے لیے ایک اختتامی دور کا بھی اعلان کیا ہے۔ تخلیق کا آخری موڑ اس آخری مرحلے میں اہرمن کا خاتمہ ہوگا اور دنیا پر صرف نیک انسان آباد ہوں گے۔ زرتشت مت نے آگے چل کر مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کا عقیدہ اختیار کیا۔ دشتاسپ کو اپنا پیرو کار بنانے کے بعد زرتشت بادشاہ کے دربار میں ہی رہا۔ دیگر حکام نے بھی مذہب تبدیل کیا اور زرتشت کی ایک بیٹی نے بادشاہ کے وزیر طہماسپ سے شادی بھی کی۔ روایت کے مطابق زرتشت 77 برس کی عمر تک زندہ رہا (551 ق م ) ۔ اس کی موت کے بعد بہت سی حکایات اس سے منسوب ہو گئیں۔ ان کہانیوں کے مطابق زرتشت کے پیدا ہونے پر ساری فطرت شاد ہوئی اور اس نے کئی قوموں میں تبلیغ کی مقدس آگیں روشن کیں اور ایک مقدس جنگ بھی لڑی۔ اسے پروہتوں، جنگجوؤں اور زراعت کاروں کے لیے ایک ماڈل کے ساتھ ساتھ ماہر دست کار اور شفادہندہ کے طور
پر بھی دیکھا گیا۔ مغربی فکر پر زرتشت کے الفاظ کا اثر واضح ہے کیونکہ افلاطون، ارسطو اور فیثا غورث نے اُس میں گہری دلچسپی لی تھی۔ دیگر یونانیوں اور رومن مصنفین نے بھی زرتشت کو مغربی دانش اور سحر کا بانی پیغمبر خیال کیا۔ بعد میں یہودیوں اور عیسائیوں کا زرتشتیوں سے تعلق قائم ہونے پر بدروحوں، فرشتوں، حیات بعد از موت اور جنت و دوزخ کے متعلق یہودی و عیسائی اعتقادات کی ترقی زرتشت کے واضح اثرات لیے ہوئے ہے۔