Democritus ڈیما کریٹس




Democritus    

 ڈیما کریٹس


پیدائش: 460 قبل مسیح

وفات:370 قبل مسیح

ملک:یونان

اہم کام: نظریہ جو ہریت




کائنات میں موجود ہر چیز اتفاق اور لزوم کا ثمر ہے۔“

ڈیما کریٹس



کائنات کا ایٹمی نظریہ پیش کرنے والا یونانی فلسفی ڈیما کرمیں ابدیرا میں پیدا ہوا۔ کچھ محققین اُس کا سن پیدائش 490 قبل مسیح بھی بتاتے ہیں۔ اُس کے باپ کا تعلق ایک اعلیٰ اور امیر کبیر خاندان سے تھا جس نے شاہ فارس زرکسیر (از نخشستا)) کی ایشیا واپسی پر اُس کی فوج کو ضیافت دینے کے لیے کافی رقم خرچ کی۔ اس خدمت کے عوض زرکسیزر نے اُسے اور دیگر اہل ابدیرا کو گراں قدر تحائف دیے اور اپنے متعدد کا ہن اُن کے پاس ہی چھوڑ گیا۔ ڈائو جینز لائٹ ٹیکس کے مطابق ڈیما کریٹس نے انہی کا ہنوں (Magi) کے پاس فلکیات اور الہیات کا مطالعہ کیا۔ اپنے باپ کی وفات کے بعد وہ دانش کی تلاش میں سفر پر روانہ ہوا اور ترکہ میں ملنے والی ساری دولت اسی مقصد میں لگائی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ مصر، ایتھوپیا، فارس اور ہندوستان گیا۔ یہ امر یقینی نہیں کہ آیا وہ اپنے اسفار کے دوران ایتھنز گیا یا انا کساغورث کے پاس مطالعہ کیا یا نہیں۔ اپنی زندگی کے ایک مرحلے پر اُس نے فیثا غورث ازم کی تعلیم حاصل کی اور لیوی پس کا شاگرد بنا۔ کئی سال تک سفر کرنے کے بعد وہ واپس ابد سرا آیا تو ساری دولت صرف ہو چکی تھی۔ تاہم، اُس کے بھائی داموس نے اُسے سہارا دیا۔ ابد یرا میں مروج قانون کے مطابق میراث میں حاصل ہونے والی دولت کو ضائع کر دینے والا شخص تجہیز و تکفین کے حقوق سے محروم ہو جاتا تھا۔ ڈیما کریس نے اس رسوائی سے بچنے کی خاطر عوامی لیکچر دیے۔ پیٹرو ٹیکس بتاتا ہے کہ وہ جڑی بوٹیوں، نباتات اور پتھروں کی خوبیوں سے واقف تھا، اور اُس نے اپنی زندگی قدرتی اجسام پر تجربات کرنے میں گزاری۔ قدرتی مظاہر کے علم نے اُسے شہرت دلا دی۔ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کی پیش گوئیاں کرنے لگا۔ اس قابلیت نے لوگوں کو اس یقین کی جانب مائل کیا کہ وہ مستقبل کے واقعات کی پیش گوئی کر سکتا تھا۔ وہ نہ صرف اُسے عام فانی انسانوں سے برتر سمجھنے لگے، بلکہ اپنے عوامی امور بھی اُس کے کنٹرول میں دینے کی خواہش ظاہر کی۔ ڈیما کر میں نے سرگرمی سے بھر پور زندگی پر تفکر انہ زندگی کوترجیح دی اور عوامی اعزازات کو قبول کرنے سے انکار کر کے اپنی باقی زندگی عزلت میں گزاری۔

ڈیما کریس کے طبیعی اور تکوینیاتی نظریات اپنے اُستاد لیوسی پس کے نظریات کا ہی مفصل اور با قاعدہ منتظم ورژن تھے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے طبیعی مظاہر کو بیان کرنے کی کوشش میں ڈیما کریس نے زور دیا کہ خلا یالاشئے (Void) کو بھی موجود سمجھنا جاتا اُتنا ہی بجا تھا جتنا کہ حقیقت یا ہستی کو۔ اُس نے لاشے کو ایک لامحدود خلا تصور کیا جس میں بستی (یعنی طبیعی دنیا) کو بنانے والے ایٹم محدود تعداد میں حرکت کرتے ہیں۔ یہ ایٹم ابدی اور غیر مرئی ہیں، اس قدر چھوٹے کہ اُن کی مزید تخفیف ممکن نہیں ۔ ( اسی وجہ سے اُن کا نام ایٹم یعنی نا قابل تقسیم رکھا۔ اُردو میں اس کا ترجمہ لا یجز کی بھی کیا جاتا ہے، یعنی جس کے مزید اجزانہ کیے جاسکیں۔) ایٹم بے مسام ہیں اور اپنی زیر قبضہ تمام جگہ کو پر کر دیتے ہیں ۔ اُن کے درمیان صرف شکل، ترتیب، مقام اور اعداد کا فرق ہے۔ لیکن مقدار میں اختلاف کے نتیجہ میں یفیتی اختلاف حض ظاہری ہیں۔ ایٹموں کی

ای یار بنایا ہے حقیقی پر صرف اور رانی اور انہیں چنانچہ پان اور وے کے ایم ای جیے ہیں لیکن پانی کے ایم نرم، گول اور گٹھاؤ کے قابل نہ ہونے کے باعث آگے ہی آگے لڑھکتے جاتے ہیں، جبکہ لو ہے کہ ایم سخت، کھردرے، غیر ہموار ہونے کے باعث آپس میں گھر کر ایک ٹھوس جسم بناتے ہیں۔ چونکہ تمام مظاہر ایک ہی جیسے ابدی ں پر مشتمل ہیں، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ قطعی معنوں میں کچھ بھی وجود میں آتا اور نہ ہی نابود ہوتا ہے۔ البتہ ایٹموں کے مرکبات بڑھوتری اور تخفیف کے ذمہ دار ہیں، اور یہی امر کسی چیز کے ظہور اور معدومیت، یا پیدائش اور موت کی

وضاحت کرتا ہے۔

ڈیما کر میٹس کے مطابق جس طرح ایٹم بے علت اور ابدی ہیں، اُسی طرح حرکت بھی ہے۔ ڈیما کریس نے ایک خالصتا مکین کی نظام کے طے شدہ اور لازمی قوانین پیش کیے۔ اس نظام میں ایک ذہین علت کی ضرورت نہیں تھی جوشی مقصد کے پیش نظر مصروف عمل ہو۔ اس نے کائنات کی ابتدا کی وضاحت یوں کی۔ آغاز میں ایٹم تمام سمتوں میں حرکت کرتے تھے۔ یہ ایک قسم کے ارتعاش کی حالت تھی۔ چنانچہ تصادم ہوئے اور ایک چکر دار حرکت کے باعث ایک جیسے انام اکٹھے ہوگئے اور متحد ہوکر زیادہ بڑے اجسام اور دنیاؤس کو تشکیل دیا۔ یہ سب کچھ کسی مقصد یا خاص منصوبے کے تحت نہیں ہوا، یکہ محض "ضرورت" (Necessity) کا نتیجہ تھا۔ یعنی یہ ایٹوں کی فطرت کا عمومی اظہار تھا۔ ایٹم اور لاشے تعداد اور وسعت میں لامحدود ہیں، اور حرکت ہمیشہ سے موجود ہے۔ لہذا ہمیشہ سے ہی لامتناہی دنیا میں موجود رہی ہوں گی جوسب کی سب نشو و نما اور انحطاط کے مختلف مراحل والے ایک ہی جیسے ایٹموں پر ستم پرمشتمل تھیں۔ ڈیما کرٹس نے اور اک اور علم پر خاص توجہ دی۔ مثلاً اُس نے زور دیا کہ احساسات وہ تبدیلیاں ہیں جو دیگر اشیا سے خارج ہونے والے ایٹوں سے روح کے متاثر ہونے پر پیدا ہوتی ہیں۔ روح کے ایٹموں کو صرف دیگر ایٹم ہی متاثر کر سکتے ہیں۔ لیکن شیر میں اور ترش جیسے احساسات خارج شدہ ایٹوں میں خلقی نہیں ، کیونکہ وہ محض ایٹموں کے سائز شکل سے پیدا

ہونے والے اثرات کا نتیجہ ہیں۔ مثلا مٹھاس کی وجہ ایسے گول ایٹم ہیں جو سائز میں بہت زیادہ چھوٹے نہیں۔ ڈیا کر فیس ہی سیبا شخص تھا جس نے رنگ کی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔ اُس کے خیال میں رحیم مرکبات کے مشتملہ ایٹوں کی پوزیشن کی وجہ سے ہیں۔ مثلاً سفیدی کا احساس ہموار اور چٹے ایٹوں کا نتیجہ ہے جن کا کوئی سایہ نہیں

ہوتا۔ جبکہ کالے رنگ کا احساس کھردرے اور غیر ہموار بیٹوں سے پیدا ہوتا ہے۔ ڈیما کر میں نے مافوق الانسان عاملیت (Agency) کو حوالہ بنا کر غیر معمولی مظاہر (رعد، صاعقه، آتش فشاں) کی وضاحت کی خواہش کو دیوتاؤں پر مقبول عام عقیدے سے منسوب کیا۔ اُس نے اخلاقیات کے بارے میں بھی لکھا اور مسرت یا خوش دلی کو اعلی ترین خوبی انایا ایسی حالت میں جو اعتدال، دینی طمانیت اور خوف سے آزادی میں حاصل ہوتی ہے۔ بعد کی تواریخ میں ڈیما کرمیں کا ذکر خندہ زن فلسفی کے طور پر آتا ہے۔ جبکہ متعین اور یاسیت پسند ہیر انگلیسکو بسورنے والا فلسفی کہا گیا۔

ڈیما کریٹس کی ایٹمی تھیوری نے بقائے توانائی اور مادے کے ناقابل تخفیف ہونے کے جدید اصولوں کی پیش بینی کی۔ اپنی قورس نے اپنے فلسفہ کے بنیادی اصول اُسی سے مستعار لیے۔