Jean-Jacques Rousseau-ژاں زیکوئیس روسو
ژاں زیکوئیس روسو (1778ء -1712ء)
معروف فلسفی ژاں زیکو ئیں روسو سوئٹزر لینڈ میں جنیوا میں 1712ء میں پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش کے تھوڑا ہی عرصہ بعد اس کی ماں چل بھی جب روسو دس برس کا تھا اس کے باپ کو جلا وطن کر دیا گیا۔ وہ جنیوا میں اسے بے یارومددگار چھوڑ کر چلا گیا۔ خود روسو نے بھی سولہ برس کی عمر میں 1728ء میں جنیوا چھوڑ دیا۔ کئی برسوں تک روسو گمنام شخص کے طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ اور ایک نوکری سے دوسری نوکری بدلتا رہا۔ اس کے متعدد معاشقے چلے، جن میں ایک تھری لواسیٹو سے تھا، جس سے اس کے پانچ ناجائز بچے پیدا ہوئے۔ اس نے پانچوں کو یتیم خانے میں داخل کروا دیا (آخر چھپن برس کی عمر میں اس نے تھریسی سے شادی کرلی۔
1750ء میں اڑتیس برس کی عمر میں روسو کو اچانک شہرت حاصل ہوئی۔ ڈیجون کی اکادمی نے اس موضوع پر کہ انسانی معاشرے اور اخلاقیات کے لیے فنون لطیفہ اور سائنس سودمند ہے یا نہیں؟" بہترین مضمون کو انعام دینے کا اعلان کیا۔ روسو کے مضمون نے انعام جیتا جس میں اس نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ مختلف فنون اور علوم کی پیش رفت انسان کے لیے سود مند نہیں ہے۔ اس مضمون نے اسے مشہور کر دیا۔ اس کے بعد اس کے متعدد مضامین منظر عام پر آئے۔ جیسے "عدم مساوات کے آغاز پر تفکر " (1755ء) (La Nouvelle Helois) (1761) ایملی (1762ء) عمرانی معاہدہ (1762ء) اعتراضات" (1770ء)۔ مزید یہ کہ روسو کو موسیقی میں گہری دلچسپی بھی تھی، اس نے دو اوپیرا لکھے۔ فرانسیسی خرد افروزی کے متعدد آزاد فکر ادیبوں سے اس کے دوستانہ مراسم تھے، جیسے ڈینس ویڈ روت اور ژاں ڈی المبرٹ وغیرہ لیکن جلد ہی اس کے خیالات باقیوں سے مختلف ہو گئے۔ جنیوا میں تھیٹر کی تشکیل نو کے والٹیر کے منصوبے کی مخالفت کر کے (روسو کا موقف تھا کہ تھیٹر رد اخلاقیات کی تربیت گاہ ہے)۔ اس نے والٹیئر کی دیر پا دشمنی مول لی۔ اس کے علاوہ روسو کی عمومی جذباتیت والشیر اور دیگر انسائیکلو پیڈیا کے مرتبین کی عقلیت پسندی کے برعکس تھی۔ 1762ء کے بعد روسو کو اپنی سیاسی تحریروں کے باعث ارباب بست و کشاد کے عتاب سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے چند رفقاء اس سے متنفر ہو گئے بس تب سے روسو واضح طور پر پیرانوئیڈ (Paranoid) کا شکار ہو گیا۔ اگرچہ لوگوں کی ایک تعداد اس کی خیر خواہ تھی، لیکن روسو طبعاً شکی المزاج اور نامہربان تھا۔ قریب سبھی سے فرداً فرداً بھر بیٹھا۔ زندگی کے آخری ہیں برس اس نے ایک درشت مزاج اور قابل رحم ناخوش انسان کی حیثیت سے گزارے۔ 1778ء میں فرانس میں ار مینو ویلا میں فوت ہوا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ روسو کی تحریروں نے اشتراکیت پسندی، قوم پرستی، رومانویت، مطلق انسانیت اور رد معقولیت پسندی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ انہی نے انقلاب فرانس کے لیے راہ ہموار کی اور جمہوریت اور مساوات کے جدید تصورات کی بنیادیں وضع کیں۔ اس کا تعلیمی پالیسی کے تشکیل میں بھی گہرا اثر و نفوذ ہوا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ خیال اس کی تحریروں سے اخذ کیا گیا کہ انسان مکمل طور پر اپنے ماحول کی پیداوار ہے سو وہ یکسر لوچدار شخصیت رکھتا ہے)۔ اس سے یہ خیال منسوب کیا جاتا ہے کہ جدید ٹیکنالوی اور معاشرہ غلط ہیں۔ اس نے نفیس "وحشی" کا تصور دیا اگر واقعی وہ انتصورات کا بانی ہے، تو پھر اس فہرست میں اسے زیادہ بلند رتبہ پر شمار کرنا چاہیے۔ یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے متعدد تصورات غلط ہیں اور بڑھا چڑھا کر بیان کیے گئے
ہیں۔
مثال کے طور پر نفیس وحشی کے تصور پر غور فرمائیے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ روسو نے کبھی یہ اصطلاح استعمال نہیں کی۔ نہ ہی وہ جنوبی بحری جزیروں کے باشندوں کا معترف تھا اور نہ ہی امریکہ انڈینز کا۔ نفیس وحشی کا تصور روسو سے بھی پہلے عام تھا۔ جبکہ معروف انگریز شاعر جان ڈرائیڈن نے روسو کی پیدائش سے قریب صدی بھر قبل اسی اصطلاح کو اپنی شاعری میں استعمال کیا تھا۔ نہ ہی روسو نے ایسا کوئی رویہ ظاہر کیا کہ معاشرہ لازمی طور پر غلط ہے۔ اس کے برعکس اس کا اصرار یہی رہا کہ معاشرے کا قیام انسان کے
لیے ضروری ہے۔ یہ روایت بھی یکسر غلط ہے کہ روسو نے "عمرانی معاہدے" کا تصور پیش کیا۔ اس تصور پر جان لاک نے تفصیلی بحث کی ہے، جس کی تحریریں روسو کی پیدائش سے بھی پہلے منظر عام پر آچکی تھیں۔ دراصل مشہور انگریز فلسفی تھامس ہابز نے روسو سے بہت پہلے عمرانی معاہدے کے تصور پر سیر حاصل بحث کی تھی۔
ٹیکنالوجی کے خلاف روسو کے موقف کی کیا حقیقت ہے؟ یہ واضح ہے کہ روسو کی موت سے دو صدی بعد آج ٹیکنالوجی غیر معمولی ترقی حاصل کر چکی ہے۔ یہ بات کہ روسو نے ٹیکنالوجی کی مخالفت کی سراسر بے بنیاد ہے۔ مزید برآں آج ٹیکنالوجی کے خلاف موجود رویہ کا ماخذ روسو نہیں ہے بلکہ یہ ان غیر موافق نتائج کے خلاف احتجاج ہے جو
ٹیکنالوجی کے بے روک ٹوک استعمالات سے گذشتہ صدی میں پیدا ہوئے ہیں۔ متعدد دیگر مفکرین نے یہ تجویز پیش کی کہ انسانی کردار کی تعمیر میں ماحولیاتی عوامل کا غیر معمولی عمل دخل ہے اور میرے خیال میں اس معمولی تصور کے لیے روسو کے سر سہرا باندھنا غیر مناسب ہے۔ جبکہ قوم پرستی کا تصور بھی اس فرانسیسی مفکر کی پیدائش سے پہلے سے موجود ہے، اور موضوع بحث رہا ہے۔ جبکہ روسو نے اس بحث میں معمولی ساہی اضافہ کیا۔
کیا واقعی روسو کی تحریروں نے انقلاب فرانس کے لیے راہ ہموار کی؟ اس حد تک تو انہوں نے کام کیا بلکہ غالبا اس ضمن میں روسو کا کردار ڈیڈ روٹ یا المبرٹ وغیرہ سے زیادہ اہم تھا۔ تاہم اس پر والٹیئر کی تحریروں، جس کی ایک تو قدامت زیادہ ہے، پھر کثرت سے اور واضح طور پر لکھی گئی تھیں، کے اثرات بہت گہرے ہیں۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ روسو مزاجا عقلیت پسندی کے خلاف تھا۔ خاص طور پر اس دور کے دیگر معروف فرانسیسی مفکرین کے مقابلے میں۔ لیکن عقلیت کی مخالفت کوئی نئی بات نہیں ہے، ہمارے سیاسی اور سماجی اعتقادات جذبات اور تعصبات پر ہی مبنی ہوتے ہیں۔ حالانکہ انہیں جائز ثابت کرنے کے لیے ہم عموماً عقلی دلائل استعمال
کرتے ہیں۔
اگر روسو کے اثرات اس درجہ دیرپا نہیں ہیں، جتنا اس کے معترفین قیاس کرتے ہیں، لیکن یہ کسی طور کم نہیں ہے۔ یہ امر بھی درست ہے کہ ادب میں رومانویت پسندی کے فروغ میں بھی اس کا بہت عمل دخل ہے۔ جبکہ تعلیمی نظام اور طریقہ کار پر اس کے اثرات البتہ زیادہ اہم ہیں۔ روسو نے بچے کی تربیت میں کتاب کی تعلیم کی اہمیت کو کم بتایا اور یہ تجویز کیا کہ اس کی عقلی تربیت سے پہلے جذباتی تربیت کی ضرورت ہے۔ اس نے بچے کی تربیت بذریعہ تجربہ پر اصرار کیا۔ ماں کی چھاتی سے دودھ پینے کے فوائد پر اصرار کرنے والے قدیم مفکرین میں روسو بھی شامل ہے)۔ یہ بات عجیب معلوم ہوگی کہ ایک شخص جس نے خود اپنے بچوں کو یتیم خانے میں چھوڑ دیا وہ دوسرے لوگوں کو نصیحت ، کرتا رہا کہ انہیں اپنے بچوں کی تربیت کسی طور پر کرنی چاہیے۔ تاہم اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں ہے کہ روسو کے نظریات نے جدید تعلیمی نظام پر گہرے اثرات مرتسم کیے
ہیں۔
روسو کی سیاسی تحریروں میں بھی متعدد دلچسپ اور حقیقی تصورات موجود ہیں، تاہم ان میں سب سے اہم اس کی مساوات پر اس کا پرجوش اصرار ہے۔ اور ایسا ہی جو شیلا احساس وہ موجودہ معاشرتی ڈھانچے میں موجود ناقابل برداشت غیر ہمواریوں کے متعلق ظاہر کرتا ہے۔ انسان آزاد پیدا ہوا، لیکن ہر جگہ وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے)۔ روسو نےخود کبھی تشدد کی حمایت نہیں کی، لیکن اس نے دوسروں کو بتدریج اصلاح کے لیے ایک پر تشد و انقلاب پر اکسایا۔ نجی املاک (اور دیگر کئی امور پر) روسو کے افکار بار ہا متناقض صورت اختیار کر لیتے ہیں، اس نے ایک جگہ جائیداد کے متعلق لکھا ”شہریوں کے حقوق میں سب سے مقدس حق ہے"۔ تاہم یہ کہنا مناسب ہے کہ نجی ملکیت پر اس کے اعتراضات نے اس کے بلند آہنگ تبصروں کی نسبت اس کے قارئین کے رویے پر زیادہ گہرے اثرات مرتب کیے۔ روسو ان اولین جدید اہم مصنفین میں سے ایک تھا، جنہوں نے سنجیدگی کے ساتھ نجی ملکیت کے تصور کو ہدف تنقید بنایا۔ سو اسے جدید اشتراکیت اور اشتمالیت پسندی کے بانیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں روسو کے "خلقی نظریات" کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ "عمرانی معاہدہ" کا بنیادی خیال روسو کے الفاظ میں یوں ہے تمام معاشرے سے ہر شخص اور اس کے تمام حقوق کی مکمل بیگانگی"۔ اس طرح کا جملہ عوامی آزادیوں یا حقوق کے آئین کی گنجائش کا حامی نہیں ہے۔ روسو نے خود ارباب بست و کشاد کے خلاف بغاوت کی۔ تاہم
اس کی کتاب کا ایک بنیادی اثر مطلق العنان حکومتوں کو ایک جواز فراہم کرتا ہے۔ روسو کو ناقدین نے ایک انتہائی نیوراتی (Neurotic) بالخصوص پیرا نائیڈ (Paranoid) شخصیت کے طور پر ہدف تنقید بنایا ہے اور یہ الزام دھرا ہے کہ وہ مرد کی حاکمیت کا حامی اور غیر عملی خیالات والا میہم مفکر تھا۔ یہ تنقید بے بنیاد بھی نہیں ہے۔ تاہم اس کے معائب سے زیادہ اہم اس کے ذہن کی جدت طرازی اور گہری بصیرت ہے جس نے دو صدیوں سے جدید ذہن کو متاثر کیے رکھا ہے۔
.