ZEUS ژینو

ZEUS   ژینو

 

ژینو


پیدائش:488 قبل مسیح


وفات:430 قبل مسیح (اندازا)


ملک:یونان


اہم کام:معدوم تحریریں



زندگی کا مقصد فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رہنا ہے۔"

ژینو


ژینو

اٹلی میں ایلیا (ویلیا) کا رہنے والا ژین ایلیا تک فلسفی اور پار مینائیڈز کا پسندیدہ شاگر د تھا۔ وہ48 برس کی عمر میں پار مینائیڈز کے ہمراہ ایتھنز گیا۔ غالباً اُس نے کچھ عرصہ ایتھنز میں ہی گزارا۔ کہتے ہیں کہ اُس نے 100 مینے کے عوض پرینکلیز اور کالیاس جیسے لوگوں کو اپنے عقائد کے متعلق بتایا۔ ڈین نے پار مینائیڈ ز کو قانون سازی میں مدد دی۔ اُس کی آزادی سے محبت کا اظہار اُس بلند حوصلگی سے ہوتا ہے جس کے ساتھ اُس نے اپنے آبائی ملک کو ایک جابر فرمانروا سے نجات دلانے کے لیے جان خطرے میں ڈالی۔ اس حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ فرمانروا کا تخت اُلٹنے کی کوشش

میں مارا گیا یا زندہ بچ گیا۔ اُس جابر فرماں روا کے نام کے متعلق بھی اختلاف ہے۔

ژمینو نے اپنی تمام تر توانائیاں پار مینائیڈز کے نظام فکر کی وضاحت کرنے اور اسے با قاعدہ صورت دینے میں صرف کیں۔ افلاطون سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ڈینو پار مینائیڈ ز سے کوئی پندرہ برس چھوٹا تھا اور جوانی میں پار مینائیڈ ز کے دفاع میں تحریریں لکھیں۔ چونکہ اُس کی زیادہ تر تحریر میں دست بردزمانہ کا شکار ہو چکی ہیں، اس لیے ارسطو کی طبیعات کتاب 6، باب 9 ) ہی کچھ معلومات فراہم کرتی ہے۔ ارسطو نے اُسے ” جدلیات کا موجد کہا۔ وہ خاص طور پر اپنے پیراڈاکسز کے لیے مشہور ہے جنہوں نے منطقی اور ریاضیاتی رجحان کو تقویت دی۔ دوام اور لامتناہیت کے بے کم و کاست تصورات تشکیل پا جانے تک یہ پیراڈا کسر نا قابل حل رہے۔ ژینو نے " واحد " ( غیر مرئی حقیقت) کے وجود کا بار مینائیڈ عقیدہ تجویز کرنے کے لیے " متعدد " ( یعنی قابل تمیز خواص اور حرکت کے قابل چیزیں) کے وجود پر عام فہم عقیدے کو جھٹلانے کی کوشش کی۔ جو لوگ سمجھتے تھے کہ پار مینائیڈز کا واحد ہستی کا نظریہ غلط ہے، ڈینو نے انہیں جواب دینے کے لیے یہ ثابت کرنا چاہا کہ زمان ومکاں میں کثیر چیزوں کے وجود کا مفروضہ اور بھی زیادہ غلط تھا۔ ژینو نے تین قضیے استعمال کیے : اول یہ کہ ہر ایک اکائی مقدار (Magnitude) کی حامل ہے: دوم، کہ یہ غیر متناہی طور پر قابل تقسیم ہے اور سوم، کہ یہ نا قابل تقسیم ہے۔ تاہم، اس نے ہر ایک قضیے کے حق میں دلائل دیے۔ پہلے قضیے کے لیے وہ دلیل دیتا ہے کہ جو چیز کچھ اضافہ یا منفی کیے جانے پر بڑھتی یا گھٹتی نہ ہو تو دوسری اکائی کچھ بھی نہیں۔ دوسرے قضیے کے لیے اس کی دلیل ہے کہ اکائی واحد ہونے کے ناتے متجانس (Homo geneous) ہے اور اسی لیے اگر یہ قابل تقسیم ہوتو ایک کے بجائے دوسرے نقطے پر قابل تقسم نہیں ہوسکتی۔ تیسرے قضیے کے دفاع میں وہ کہتاہے کہ اکائی اگر قابلِ یم ہو تا حد طور پر اب تقسیم ہوتی ہے۔ کافی پیچیدہ دال میں اورانہیں مجھے میں کافی دشواری کاسامنا کرناپڑتا ہے۔

اس لیے آئے ذرا تفصیل سے کوشش کرتے ہیں۔

ژینو کے دلائل کو دو گروپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے گروپ کے پیرا ڈا کٹر تمثیرات (Multiplicity) کے

خلاف ہیں اور ان کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ لامحدود یا

گا۔ بی عمل جری رکھنے پر ہم کبھی بھی آخری نقے تک نہیں پہنچتے، اس لیے لکیر نقطوں پر مشتمل نہیں ہوسکتی۔ (2)۔ کیر میں موجود نقط محدود بھی ہیں اور لامحدود بھی۔ ان کی تعداد محدود اس لیے ہے کیونکہ ایک نقطے تک پیچ کر ختم ہو جاتی ہے۔ ہم لامتناہی طور پر قابل تقسیم ہونے کی وجہ سے یہ لامحدود ہے۔ چنانچہ لکیر کو بہت سے نقطوں پر مشتمل فرض کرنا تقاضی ہے۔ مینو کے دلائل کا دوسرا گروپ حرکت سے متعلق ہے۔ انہوں نے زماں کا عصر متعارف کروایا، اور ان کا مقصد یہ کھا ہے کہ جس طرح کی نا کا مجموعہ ہیں، اسی طرح وقت بھی لحات کا مجموعہ نہیں۔ اس حالے سے پار دلائل کے گئے : اُڑتا ہوا تیر حالت سکون میں ہے۔ کسی بھی مخصوص لمحے میں یہ مکاں میں اپنی ہی طوالت کے برابر ہے، اور الہذا اس لحے میں ساکن ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ تاملات میں ساکن ہو گا۔ ان سکون کی حالتوں کی ایک غیر متناہی تعداد کا مجوعہ ترک نہیں کہلا سکتا ہے۔ یہ دلیل بہت مشہور ہے اور باقی تمن دلائل پر بحث زیادہ دقیق ہوگی۔ زمینو اصل میں اپنے مخالفین کے خلاف دلائل دے رہا تھا۔ فیا فورٹ پسند اعداد پرشتمل تکثیریت پر یقین رکھتے تھے اور ان اعداد کو توسیع شدہ اکا ئیاں خیال کیا جاتاتھا۔ کانٹ ، ہیوم اور بیگل نے نینو کے پیراڈاکسن کا حل پیش کرنے کی کوشش کی ۔ آج ریاضی دان، طبیعات دان اور سائنس کے فلسفی اس بارے میں متفق ہیں کہ زمینو کے پیراڈا کرکے دریافت کردہ تضادات سے بچنے کے لیے کون سے تقاضے پورا کرا ضروری ہیں۔ مکال، زماں اور حرکت کے تصورات کو یکسر بدلنا پڑا، اور اس طرح خط، عدو، پیدائش وغیرہ کے ریاضیال تصورات کے معاملے میں بھی ہوا ۔

کسی ایک شخص کوثرمینو کے پیراڈاکٹر حل کرنے کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نیوٹن اور لینز کے کیلکولس (احصا) نے گراں قدر حصہ ڈالا، اور بیسویں صدی کی ابتدا میں کینور اور آئن سٹائن جیسے ریاضی دانوں نے اس عمل کو انجام تک پہنچایا۔