![]() |
Parmenides پار مینائیڈز |
پار مینائیڈز
پیدائش: 515 قبل مسیح (اندازا)
وفات: 450 قبل مسیح (اندازاً)
ملک:یونان
اہم کام : فطرت کے بارے میں (معدوم)
ہستی ہے، اور عدم نہیں ہے۔"
پار مینائیڈز
یونانی فلسفی اور شاعر پار مینائیڈ ز 515 اور 510 قبل مسیح کے درمیان زیریں اٹلی میں ایلیا کے مقام پر ایک اعلیٰ گھرانے میں پیدا ہوا۔ وہ ایلیا تک (Eleatic) فلسفہ کا سرکردہ نمائندہ ہے۔ اس کی شان دار قانون سازی کی وجہ سے ساتھی شہری اس کا بہت احترام کرتے تھے۔ اس کی مثالی زندگی کو بھی بہت سراہا جا تا تھا۔ یونانیوں کے ہاں پار مینائیڈ دین زندگی ایک ضرب المثل بن گئی ۔ عام طور پراسے زینو فینز کا شاگر د بتایا جاتا ہے۔ پار مینائیڈ کی تحریریں ہیراکلیتیس سے بعد کی ہیں اور ان میں ہر اکتیس کا واضح ذکر ملتا ہے: ”جس کی نظر میں ہستی ہے بھی اور نہیں بھی مماثل اور متضاد بھی ہے، اور تمام چیزیں مخالف سمت میں سفر کرتی ہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ پار مینائیڈ 65 برس کی عمر میں کسی سفر کے دوران ایتھنز میں ٹھہرا اور وہاں جو ان سقراط کا واقف بنا۔ یہ ضرور پانچویں صدی قبل مسیح کے وسط کی بات ہوگی۔ پار مینائیڈ ز نے پرانی ایونیائی نثری روایت سے انحراف کرتے ہوئے بحر مسدس میں لکھا۔ اس کی ناصحانہ نظم " فطرت کے بارے میں سے محض کچھ ٹکڑے ہی ہم تک پہنچے ہیں۔ البتہ ابتدائی وعظ محفوظ رہا۔ پار مینائیڈز نے یہ نظم اپنے عہد جوانی میں لکھی تحریر کو غیر آرٹسٹک خیال کیا جاتا ہے۔ اس کا ہسیاؤ ک انداز تکوینیات کے لیے موزوں تھا جسے وہ دوسرے حصے میں بیان کرتا ہے۔ پار مینائیڈ ز خلقی طور پر شاعر نہیں تھا، اور سوال کیا جاتا ہے کہ کس بات نے اسے یہ انحراف پسندانہ روش اختیار کرنے پر مائل کیا۔ مینوفینز کی شاعرانہ تحریروں کی مثال مکمل توضیح نہیں، کیونکہ دونوں کی شاعری کا انداز بالکل مختلف ہے۔ پار مینائیڈ ز آسمان پر اُس دیوی کے گھر تک جانا بیان کرتا ہے جو بقیہ نظم میں ہم کلام ہے۔ اظم کے آغاز میں وہ خود کو ایک رتھ بان کے طور پر بیان کرتا اور بتاتا ہے کہ شمسی دوشیزائیں (Sunmaidens) رات کے محلات“ سے نکل کر سفر میں اُس کی رہنمائی کرنے آئیں۔ وہ شاہراہ پر سفر کرتے کرتے شب و روز کے مدخل پر آتے ہیں جو مقفل اور بند ہے۔ قتل کی کلید Dike کے پاس ہے۔ شمسی دوشیزائیں اسے قفل کھولنے پر مائل کرتی ہیں۔ وہ دروازے میں سے گزر کر دون“ کی اقالیم میں پہنچتے ہیں۔ منزل مقصود دیوی کامل ہے جو پار مینائیٹڈ کو خوش آمدید کہتی اور دو حوالوں سے اس کی رہنمائی کرتی ہے: کہ صداقت کیا ہے اور عقیدے کی باعث فریب راہ کیا ہے۔ یہ سب کچھ نہایت روایتی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کا واضح مفہوم یہی بنتا ہے کہ پار مینائیڈ ز خطا (رات) سے سچائی (دن) کی جانب گیا۔ یہ یقین کرنے کی وجہ موجود ہے کہ عقیدے کی راہ فیثا غورثی تکوینیات کا اظہار ہے۔ بہر صورت اسے کسی خطا کے بیان کے سواکسی اور چیز کا بیان قرار دینا ناممکن ہے۔ نیز یہ خطا کارانہ عقیدہ عام آدمی کا نظریہ دنیا نہیں بلکہ با قاعدہ ایک
فکری نظام ہے جو مخصوص خطوط پر ایونیائی تکوینیات کی فطری ترقی معلوم ہوتا ہے اور اس تقاضے کو صرف اور صرف فیثا غورثی نظام ہی پورا کرتا ہے۔ اس مقام پر اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے کہ پار مینائیڈز نے اس نظام کو زیر غور لانے کی زحمت گوارا نہ کی جسے وہ سر دست مسترد کرتا ہے، لیکن یہ اعتراض الہامی دستور کو غلط معنوں میں لینے کا نتیجہ ہے۔ پار مینائیڈ نہیں بلکہ دیوی اس نظام کی تشریح کرتی ہے اور اسی وجہ سے بیان کردہ عقائد کو ” فانیوں سے متعلقہ کہا جاتا ہے۔ روح کے مسعود کا بیان اس وقت تک ادھورا رہے گا جب تک اس خطے کی تصویر کشی نہ کی جائے جہاں سے وہ آئی۔ دیوی کے لیے ان دوراہوں کو آشکار کے عروج نے پہلی بار سوچ کی قوت کو آشکار کیا تھا۔ تمام ریاضی دانوں کے ہاں سوچ میں آسکنے اور موجود ہو سکنے والی چیزیں
سکتی۔ چنانچہ اس کے موجود ہونے یا نہ ہونے کا سوال یوں بھی پیش کیا جا سکتا ہے: کیا اسے سوچا جا سکتا ہے یا نہیں؟ بہر کیف پار مینائیڈ ز کی نظم کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں سچائی اور دوسرے میں دنیائے سراب پر بحث کی گئی ہے۔ سراب کی دنیا اصل میں حسیات اور ان کی بنا پر قائم شدہ انسانی آرا کی دنیا ہے۔ پار مینائیڈز کی رائے میں سچائی ہستی کے ادراک میں مضمر ہے، اور لاوجود کے موجود ہو سکے کا تصور ایک خطا ہے۔ قابل اور اک چیزوں کے سوا کچھ بھی حق نہیں؟ چنانچہ قابل تصور ہونا اور ہست ہونے کی اہلیت ایک ہی چیز ہیں اور کوئی ترقی موجود نہیں۔ قابل اور اک چیز کا جو ہر اس کا ناقابل ترتی، ناقابل فا، ناقابل ترمیم غیر محدود اور غیر مری نہ ہوا ہے۔ تنوع وترمیم اور تام ترقی ایک فریب نظر ہے۔ ہستی کے خالص جو ہر کی جانب لگائی ہوئی سوچ کا نام اور اک ہے دنیائے مظاہر ایک سراب ہے اور اس کے حوالے سے قائم شدہ آرا محض قیاس ہی ہو سکتی ہیں۔ پار مینائیڈز اس اصول کی روشنی میں غور کرتا ہے کہ کسی چیز کے ہست ہونے کی بات کرنے کے نتائج کیا ہیں۔ اول، ہو سکتا ہے کہ وہ وجود میں ہی نہ آئی ہو۔ اگر وہ ہے تو اس کا ظہور کسی بھی چیز میں سے نہیں یا کسی نہ کسی چیز میں سے ہونا لازمی ہے۔ وہ لاشئے میں سے ظہور نہیں پاسکتی کیونکہ کوئی لاشئے موجود نہیں ۔ اس کا ظہور کسی نہ کسی چیز میں سے بھی نہیں ہوسکتا؟ کیونکہ ہستی یا وجود کے سوا کچھ بھی موجود نہیں۔ نہ ہی کوئی چیز اپنے علاوہ کسی سے وجود میں آسکتی ہے۔ آیا وہ موجود ہے یا
نہیں؟ اگر وہ موجود ہے تو بس موجود ہے۔ اس طریقہ سے پار مینائیڈ ز دنیا کی ابتدا کے تمام بیانات کومستردکرتا ہے۔ پار مینائیڈز نے کہا کہ موجودات ، ان کی متغیر صورتیں اور حرکت محض واحد ابدی حقیقت (وجود) کا ظاہری روپ ہیں۔ لہذا تبدیلی یالا وجود کے تمام دعوے غیر منطقی ہیں۔ در حقیقت وہ ایک ہستی مطلق کو مانتا تھا جس کی عدم موجودگی قابل تصور نہیں لیکن اس کی نوعیت ( فطرت ) بھی اتنی ہی نا قابل تصور ہے، کیونکہ ہستی مطلق انسانی سوچ کی کسی بھی حد سے ماورا ہے۔ پار مینائیڈ ز کہتا ہے کہ مظاہر فطرت محض ظاہری اور انسانی خطا کا نتیجہ ہیں۔ وہ ہست تو لگتے ہیں لیکن کوئی حقیقی وجود نہیں رکھتے۔ نیز وجود حقیقی کا ادراک حسیات کے ذریعہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ صرف منطق میں ملتا ہے۔ یہ عقیدہ اس کو افلاطون کی عینیت پسندی کا نقیب بناتا ہے۔ پار مینائیڈز کا نظریہ کہ لاوجود میں سے وجود کا ظہور نہیں ہوسکتا اور وجود کا ظہور ہوتا ہے نہ عدم اس کے بعد آنے والے ایپی ڈوکلیز اور ڈیما کرٹس نے استعمال کیا اسے اور اپنے مادیت پسندانہ نظریہ کا ئنات کی بنیا درکھی۔
ہماری نصابی کتب کا مادہ پارمینائیڈز کا حقیقی ہے؛ اور جب تک ہم مادے کے سوا کسی اور چیز کے لیے جگہ نہ ڈھونڈ لیں، اس کے بیان کردہ نظریہ حقیقت میں ہی مقید ہو جاتے ہیں۔ بعد میں آنے والا کوئی بھی فکری نظام اسے نظر انداز نہیں کر سکا، لیکن اس جیسے عقیدے کو مستقل طور پر مان لینا یقینا ناممکن تھا۔ یہ ہمیں معلوم دنیا کے ہست ہونے کے دعوے سے محروم کر دیتا ہے اور دنیا کو محض سراب بنا کر رکھ دیتا ہے۔ اگر ہمیں دنیا کا قابل فہم بیان پیش کرنا ہے تو یقیناً حرکت کو دوبارہ متعارف کروانالازمی ہے۔ اگر ہمیں پار مینائیڈ ز کے اخذ کردہ نتائج سے بچنا ہے تو اس کی وضاحت کرنا پڑے گی۔ حیاتی شہادت پر پار مینائیڈز کے عدم یقین اور قیاسی علم کی بہت زیادہ قدر افزائی نے اس کی تعلیمات میں عینیت اور حتی کہ استدلالیت کا ایک عصر متعارف کروایا، جبکہ ترقی (حرکت) سے انکار نے اسے قدیم یونانی مابعد الطبیعات کا بانی بنا دیا۔ لہذاوہ مادیت اور عینیت دونوں قسم کے نظام ہائے فکر کومتاثر کرنے کا باعث بنا۔