پیدائش: 490 قبل مسیح ( اندازاً)
وفات:430 قبل مسیح
ملک:یونان
اہم کام فطرت کے بارے میں
تمام عناصر جہاں سے آئے وہیں واپس لوٹیں گے۔ ہمارے جسم مٹی میں، خون
پانی میں حرارت آگ میں اور سانس ہوائیں ۔“
ایمی ڈوکلیز
ایمپی ڈوکلیز
یونانی فلسفی ، ریاست کار اور شاعر ایپی ڈوکلیز ایگری ٹیٹم پسلی میں پیدا ہوا۔ وہ قبل از سقرابا فلسفیوں میں متاز مقام رکھتا ہے۔ بطور شاعر بھی اُس نے بعد میں آنے والے شعرا مثلا لو کر ٹیکس پر عمیق اثرات مرتب کیے۔ اُس کی زندگی کے متعلق معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ ڈالو جینز لائرلیس کی ممتاز فلسفیوں کی سوانحات" ہے۔ غالباً الوہی حیثیت اور مجزاتی قوتوں کا حامل ہونے کا دعویٰ کرنے کے باعث ہی وہ متعدد حکایات کا موضوع بن گیا۔ اُس کا تعلق ایک اہم اور امیر اثرانی خاندان سے تھا۔ اُس کے دادا نے 496 قبل مسیح کی اولمپک کھیلوں میں گھوڑ دوڑ جیتی تھی۔ یہ معلوم نہیں کہ اس نے کہاں اور کس کے پاس فلسفہ پڑھا، لیکن روایات کے مطابق وہ پار مینائیڈز کا شاگرد تھا۔ کچھ دیگر روایات میں اُسے فیا غورث، مینوفینز ، انا کسا غورث اور انا کسی ماندر کا شاگرد بھی بتایا جاتا ہے۔ وہ چاہے پار مینائیڈز کا شاگر درہا ہو یا نہ لیکن اُس کے کام سے بخوبی واقف اور گہرائی میں متاثر تھا۔
قرائن سے پتا چلتا ہے کہ ایپی ڈوکلیز نے جمہوریت مخالف شہریوں کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ مساوات کی حمایت میں اُس کی دو تقریر میں بھی ملتی ہیں۔ بحیثیت مجموعی تمام روایات اُسے ایک مقبول سیاستدان فصیح و بلیغ مقرر اور جمہوریت ومساوات کا چیمپیئن ظاہر کرتی ہیں۔ وہ فلسفی ، شاعر اور سیاست دان کے علاوہ طبیب اور شافی کے طور پر بھی مشہور تھا۔ اچھی ڈوکلیز کی طبیعات کی بنیادیں اس مفروضے پر ہیں کہ مادے کے چار عناصر (ماخذ ) ہیں، مٹی، ہوا، آگ اور پانی۔ یہ زندہ مخلوقات سمیت تمام چیزوں کو تخلیق کرنے کے قابل ہیں۔ مختلف امتزاجات اور تناسبات میں باہم ملنے کے ذریعے۔ تاہم ، مرکب میں ہر ایک عصر اپنی خصوصیات برقرار رکھتا ہے، اور ہر ایک ابدی اور غیر متغیر ہے۔ مادے کے ان چار ماخذوں کا بیان قبل از سقراط فلسفے میں متضاد مادی تخلیقی سرچشموں کی روایت کا حصہ ہے لیکن یہ پار مینائیڈ ز کی تھیوریز کا جواب دینے کی کوشش بھی تھی، جس نے کہا کہ دنیا و احد اور غیر متغیر ہے کیونکہ لاشئے میں سے کچھ بھی ظاہر نہیں ہوسکتا اور کوئی بھی چیز لاشئے میں فنانہیں ہو سکتی یہ تھیوری ایلیائی (Eleatic) وحدانیت کہلائی۔ اپکی ڈوکلیز نے جواب دینے کے لیے پار مینائیڈز کے ہی خیالات کو استعمال کیا۔ لاشئے میں سے کچھ بھی ظاہر نہیں وسکتا اور کوئی بھی چیز لاشئے میں فنا نہیں ہوسکتی، چنانچہ دنیائے مظاہر کی حقیقت کو بچانے کی خاطر ) یہ فرض کرنا پڑے گا کہ ری دنیا کی متواتر تغیر پذیری، نشود نما اور انحطاط کی تہ میں کچھ ابدی اور غیر متغیر چیز موجود ہے۔ الخضر،ایمی ڈوکلیز کا خیال تھا کہ تمام مادو چار بنیادی اجزا سے مل کر بنا ہے، اور کچھ بھی ہت یا معدوم نہیں ہوتا، بلکہ چیزیں اپنے بنیادی جواہر کے تناسب کی بنیاد پر شاہیت تبدیل کرتی ہیں۔ ہیرا اکھٹی کی طرح وہ بھی یقین رکھتا تھا کہ محب اور نفاق کی دو قو تیں باہمی عمل درآمد کے ذریعہچاروں عناصر کو اکٹھا اور علیحدہ کرتی ہیں۔ نفاق ہر ایک عنصر میں بعد اور فاصلہ پیدا کرتا ہے، محبت انہیں ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔ حقیقی دنیا ایسے مرحلے پر ہے۔ اس میں کوئی بھی قوت غالب نہیں۔ آغاز میں محبت غالب تھی اور چاروں عناصر آپس میں مل گئے : کائنات کی تشکیل کے دوران نفاق وارد ہوا اور ہوا، آگ ہمٹی اور پانی کو جدا کر دیا۔ بعد میں چاروں
عناصر جزوی طور پر دوبارہ مرتب ہوئے : مثلاً چشمے اور آتش فشاں مٹی میں پانی اور آگ کی موجودگی ظاہر کرتے ہیں۔ ایپی ڈوکلیز انواع کے ماخذ کے لیے اولین معلوم استدلالی میکنزم بیان کرتا ہے۔ اُس کے مطابق تمام انواع کا ظہور زمین میں سے ہوا۔ جہاں تک انسان کا معاملہ ہے تو سب سے پہلے ٹانگیں اور مختلف اعضا پیدا ہوئے۔ ابتدا میں یہ سب اعضا الگ الگ سرگرداں تھے۔ آخر کار محبت کی قوت نے انہیں اکٹھا کیا اور وہ جیتے وجود میں آئے جن کی شکل بیل اور انسان
کا ملغوبہ تھی۔ ایمپی ڈوکلیز اپنے نظریہ ارتقا میں انسانوں اور جانوروں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا۔ ایسی ڈوکلیز پہلا ایسا فلسفی نظر آتا ہے جس نے ہمارے چیزوں کا ادراک کرنے کے طریقہ کار کی تفصیلی وضاحت کی۔ اُس کا نظریہ (جس پر ارسطو اور تھیوفراسٹس نے تنقید کی) یہ ہے کہ تمام چیزیں لہر میں جاری کرتی ہیں جو حسی اعضا کے مساموں میں داخل ہو جاتی ہیں۔ مسام اور لہریں مختلف شکلوں اور سائز کی ہونے کے باعث مخصوص اور موزوں حسی اعضا کے مساموں میں ہی داخل ہوتی ہیں۔ نیز ایک جیسے عناصر کی مطابقت کے ذریعہ ادراک حاصل ہوتا ہے: ہم آنکھ میں موجود آگ اور پانی کی مدد سے ہی بالترتیب ہلکے اور گہرے رنگوں کا ادراک کرتے ہیں ،نتھنوں میں موجود سانس بوکا ادراک ممکن بناتی ہے۔ بدیہی طور پر تناسخ ارواح ( آواگون) پر کڑا ایمان رکھنے والے ایپی ڈوکلیز نے اعلان کیا کہ گناہ گاروں کو30,000 موسموں تک مختلف فانی جسموں میں جنم لینا ہو گا۔ اس سزا سے بچنے کے لیے تقویٰ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اُس کے خیال میں تقویٰ اختیار کرنے کے لیے جانوروں کا گوشت کھانے سے اجتناب لازمی ہے، کیونکہ عین ممکن ہے کہ ان کی روحیں کبھی انسانی جسموں میں مقیم رہ چکی ہوں۔ وہ جانوروں کا گوشت کھانے کو خوف ناک ترین گناہوں میں شمار کرتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق خود ساختہ دیوتا ایپی ڈوکلیز نے پیروکاروں کو اپنی اُلوہیت کا یقین دلانے کے لیے Etna پہاڑ کے آتش فشانی گڑھے میں کود کر جان دے دی تھی۔ (انگلش شاعر میتھیو آرنلڈ نے Empedocles on" "Etna میں اسی روایت کو بنیاد بنایا) معاصرین کے خیال میں وہ واقعی محض ایک فانی انسان سے بڑھ کر تھا۔ کہتے ہیں کہ ارسطو نے اُسے علم بدائع کا موجد قرار دیا اور گلین ( جالینوس) اُسے اطالوی طب کا بانی سمجھتا تھا۔ لوکر ٹیٹس نے اُس کی مسدس شاعری کو سراہا۔ آج اُس کی نظم ” فطرت کے بارے میں کی کوئی 400 سطر میں اور تطہیرات“ کے کوئی 100 اشعاری ہم تک پہنچتے ہیں۔ لیکن طب، فلسفہ، سائنس اور تکوینیات میں اُس کے اثرات واضح ہیں۔